ڈاکٹر شاکرہ نندنی ، پُرتگال
تمام آنکھیں میری آنکھیں ہیں
آنکھیں بھی کیا خوب ہیں، ایک بار کھلتی ہیں تو موت پر ہی بند ہوتی ہیں۔ کھلنے اور بند ہونے کے درمیانی عرصے میں سوتی جاگتی آنکھیں کیا کچھ اپنے اندر سمو لیتی ہیں۔ یہ نہ صرف دل و ذہن کو چہرے پر لے آتی ہیں بلکہ پورا وجود ہی آنکھ کی پتلی میں سمٹ آتا ہے۔
اگر ان سے رنگ و نور کے چشمے پھوٹتے ہیں تو باہر کے رنگوں کو بھی ہر لمحہ یہ اپنے اندر سموتی رہتی ہیں۔ کبھی آسمان کی بلندی، کبھی خورشید کی تمازت، کبھی چاند کی اداسی تو کبھی سمندروں کے مد و جزر ان کے دامن میں پناہ لیتے ہیں۔ ایک منظر کے بعد دوسرا منظر، پھر منظر کے بعد کا منظر، پھر پس منظر، گویا جسم کا یہ دروازہ ہر منظر کے لئے کھلا ہی رہتا ہے۔ میری آنکھوں نے کیا دیکھا، کیا سمجھا، کیا کھویا، کیا پایا، کسے اپنایا، کسے ٹھکرایا، کہاں بھٹکیں، کہاں ان کی سرزنش ہوئی، کس منظر کو یاد رکھا، کسے بھلا دیا، کس سے بات کی، کس سے منہ موڑا، کہاں اٹھیں، کہاں جھک گئیں، کہاں دل بن گئیں، کہاں ذہن میں ڈھل گئیں، کہاں ان پر پیار آیا، کہاں انھیں نوچ کر پھینکنے کو جی چاہا، ایک نہ ختم ہونے والا منظر نامہ ہے جو قلم کے راستے کاغذ کی روح میں اتر گیا ہے۔
آنکھیں بند کرتی ہوں تو اندر کی آنکھ پلکیں جھپکنے لگتی ہے۔ آنکھیں کھولتی ہوں تو خود آنکھ بن جاتی ہوں۔ لگتا ہے کائنات کی سب آنکھیں میرے وجود پر آ گئی ہوں۔ ہر زاویہ نگاہوں کی زد میں آ کر انکشاف کی نئی قیامتیں توڑ تا رہتا ہے۔
باطن کی آنکھ کھل جائے تو ظاہری آنکھیں مضطرب ہو جاتیں ہیں۔ چشمِ حیراں کو دلاسا دینا چاہا مگر تلاش و جستجو میں کوئی سرا ہاتھ نہ لگا۔ دل سے پوچھا تو وہ خود آنکھ بن گیا۔ ذہن سے سوال کیا تو کئی آنکھیں اس کے اندر روشن ہو گئیں۔ روح سے پوچھا تو اس کی تابناکیوں نے نئے عالم آشکار کر دیئے۔
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا دیکھ رہی ہوں، کیا آنکھ سے اوجھل ہے اور کیا اوجھل نہیں ہے۔ جو نظر آتا ہے وہ ہے نہیں ہے، سب دھوکا ہے، باطل ہے، فریبِ نظرہے، جو ظاہر کی آنکھ نہیں دیکھ سکتی وہی سچ ہے، وہی حق ہے، وہی جستجو، وہی راستہ، وہی منزل ہے، وہی خواب ہے، وہی تعبیر ہے، اندھیرا فریب دیتا ہے، آنکھ اس فریب کوسمجھتی ہے۔ اندھیروں میں بھی متلاشی آنکھیں ظلمت کا پردہ چاک کر کے وہ دیکھ لیتی ہیں جو دیکھنا چاہتی ہیں۔ اندھیرا چشمِ بینا کی راہ میں دیوار نہیں بن سکتا۔
آنکھیں راستے کی ہر دیوار گرانا جانتی ہیں۔ بشرطیکہ ہنر مند ہوں، لگن رکھتی ہوں، کیف و مستی سے سرشار ہوں، جذب کا ایسا عالم ہو کہ ہر چیز وجد میں آ جائے۔ کائنات پاؤں میں گھنگرو پہن کر محوِ رقص ہو جائے، ڈھولک کہیں اور بجے، رقص کہیں اور ہو۔ یہ آنکھ کے عرفان کی انتہا ہے۔
پیدائش اگر ایک انتہا ہے تو موت دوسری انتہا۔ ہم خاکی صورت لوگ ان انتہاؤں کے درمیان قید ہیں ، جتنے مجبور ہیں اتنے بااختیا ر بھی ہیں ،جتنی لگن ہے ، جتنی تڑپ ہے، اتنا ہی اختیار بھی ہمارے حصے میں آئے گا۔پھر سب عیاں ہو جاتا ہے ، آگہی کے در وا ہو جاتے ہیں ، پردے اٹھتے ہیں ، اصل تماشا نظر آتا ہے۔ بس جادۂ عرفاں پر چلنے کی ضرورت ہے ۔ باطن کی آنکھ ایک کے بعد ایک منظر دیکھتی ہے تو ظاہر کی آنکھ حیرتوں میں ڈوب جاتی ہے۔
یہ کائنات حیرت کدہ ہے ۔ صرف دیکھنے والی آنکھ چاہئیے۔ حیرت زدہ آنکھوں نے جب اردگرد دیکھا تو سب اپنا ہی لگا۔ ہر آنکھ اپنی آنکھ اور ہر روشنی اپنی روشنی تھی۔ میری آنکھیں، میری نہ رہیں۔ کائنات میں بکھر کر ہر منظر کے چہرے پر ثبت ہو گئیں۔ اس ادل بدل میں سب آنکھیں میری آنکھیں بن گئیں۔ سب نقش میرے تھے، سب رنگ، سب جذب، سب کیف و مستی میرے اندر ہی موجود تھی۔ رگوں میں دوڑتا ہوا لہو ثناء خوانی کر رہا تھا۔ دل کسی کی یاد میں گریہ زاری کر رہا تھا۔ ایک شور تھا جو کبھی سکوت میں ڈھل گیا تو کبھی شعروں میں اتر کر کاغذ کے وجود سے لپٹ گیا۔
ریشمی دھاگے
صاحب اب میرا کام ہو جائے گا ناں؟ اُس نے دیوار کی طرف رخ موڑا اور تیزی سے کپڑے پہننے لگی۔ ہاں ہاں بھئی ہو جائے گا۔ میری سانسیں اب بھی بے ترتیب تھیں۔ پھر میں پیسے لینے کب آؤں؟ دوپٹے سے اس نے منہ پونچھا اورپھر جھٹک کر لپیٹ لیا۔پیسے ملنے تک تو تمہیں ایک دو چکر اور لگانے پڑیں گے۔ کل ہی میں مالکان سے تمہارے شوہر کا ذکر کرتا ہوں۔ میں نے شرٹ کے بٹن لگائے۔
ہاتھوں سے بال سنوارے اور دفتر کے پیچھے ریٹائرنگ روم سے باہراحتیاط کے طور پر ایک طائرانہ نظر دوڑانے لگا۔ ویسے تو دفتر کا چوکیدار مجھ سے چائے پانی کے پیسے لے کر میرا خیرخواہ ہی تھا لیکن میں کسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔
پھر میں کل ہی آ جاؤں؟ وہ میرے پختہ جواب کی منتظر تھی۔ نہیں کل نہیں!!! میں اس روز یہاں آ نے کا رسک نہیں لے سکتا تھا اس لئے بس آہ بھر کر رہ گیا۔ ہائے غریبوں کو بھی کیسے کیسے لعل مل جاتے ہیں ۔ میں نظروں سے اس کے جسم کے پیچ و خم کو تولنے لگا۔ ارے سنو!! تم نے شلوار الٹی پہنی ہے۔ وہ چونک کر اپنی ٹانگوں کی طرف جھکی اور پریشان ہو گئی۔ اسے اتار کر سیدھی پہن لو۔ میں چلتا ہوں میرے پانچ منٹ بعد تم بھی پچھلے دروازے سے نکل جانا۔ اور ہاں! احتیاط سے جانا کوئی دیکھ نہ لے تمہیں۔
مُنوخان چار سال سے ہماری فیکٹری میں رات کا چوکیدار تھا۔ دو مہینے پہلے ڈاکوؤں کے ساتھ مزاحمت کے دوران اسے ٹانگ پر گولی لگی اور اب بستر پر لاچار پڑا تھا۔ فیکٹری کے مالکان اس کی امداد کے لئے پچاس ہزار روپے دینے کا اعلان کر کے بھول چکے تھے۔ اس کی بیوی اسی سلسلے میں بار بار چکر لگا رہی تھی۔ میں نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور چھٹی کے بعد شام کو اسے فیکٹری آنے کا اشارہ دیا۔
نجیب! اپارٹمنٹ کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عقب سے مجھے اپنی بیوی کی آواز سنائی دی۔ اس کے اور میرے گھر آنے کا وقت ایک ہی تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے بینک میں کلرک تھی۔ ایک خوشخبری ہے نجیب، وہ تیزی سے اوپر آ رہی تھی۔ خوشی سے اسکی باچھیں کھل رہی تھیں۔
مینیجر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں اور آج ہی انہوں نے میرے پروموشن کی بات کی ہے۔ دروازے کے سامنے اس نے ہینڈ بیگ ٹٹولا اور چابی نکال کر کہنے لگی، انہوں نے کہا تھوڑا وقت لگے گا مگر کام ہو جائے گا۔
ارے واہ مبارک ہو۔ میں نے خوشدلی سے اسے مبارکباد دی۔
تمہیں معلوم ہے مجھ سمیت پانچ امیدوار ہیں مگر ڈائریکٹر صاحب میرے کام سے بہت خوش ہیں۔ کیوں نہ ہوں میں محنت جو اتنی کرتی ہوں۔ وہ اندر داخل ہوتے ہوئے بھی مسلسل بولے جا رہی تھی۔
میں اسکی پیروی کرتے ہوئے اس کی فتح کی داستان سے محظوظ ہو رہا تھا کہ۔۔
اچا نک میری نظر اسکی الٹی شلوار کے ریشمی دھاگوں سے الجھ گئی۔