You are currently viewing افتخار نسیم: امریکہ(شاعری)
افتخار نسیم،امریکہ

افتخار نسیم: امریکہ(شاعری)

(نظمیں)

رشک

تم عورت ہو

ایک سمندر ہو

پر اسرار ہو

تم کتنے ہی جھوٹ چھپا سکتی ہو

اپنے مرد کی کمزوری کو

اپنی ممتا کے آنچل سے

ڈھانپتی ہو

تم مردوں سے طاقتور ہو

تم یوگا کے ہر آسن کی

ماہر ہو

تم کو اپنے اعضاء پر کتنا قابو ہے

میں کیسے اک جھوٹ چھپاؤں

مجھ کو اپنے ایک عضو پر

قابو ہوتا

میں بھی جھوٹ کو سچا

ثابت کر دیتا

ماخذ

شعری مجموعہ: نرمان،افتخار نسیم،صفحہ نمبر69

******

ایک مختلف کہانی

جولی کتنی بھولی تھی

 جب اُس نے اظہار کیا تھا

اپنے اندر کی خواہش کا

اُس چھوٹے سے شہر کے

 سارے لوگوں نے اُس پر تھو کا تھا

چرچ کے فادر نے اُس کو

انجیل مقدس کے ورقوں سے پڑھ کر سنایا

عورت نسل انسانی کی خاطر دنیا میں آئی ہے

 اُس کے اندر کی خواہش تو ایک گنہہ ہے

یہ تو کافی سال پرانا قصہ ہے

 اب جولی تو بہت بڑے اک شہر کے اندر

عالی شان مکان میں رہتی ہے

کبھی کبھار ا سے جب

 اُس چھوٹے قصبے کی یا دستاتی ہے تو

 کسی بھی قبرستان میں جا کر

انجانی قبروں پہ

پھول چڑھا کر

گھر کو واپس آجاتی ہے

ماخذ

شعری مجموعہ: نرمان،افتخار نسیم،صفحہ نمبر75

******

وسط عمر کا بحران

میں عمر کے ایک عجیب حصے میں آگیا ہوں

جہاں نہ کوئی حریم جاں

نہ عدوئےجاں ہے

نہ خطرۂ سود اور زیاں ہے

یہ دل ترازو ہے

جس کے پلڑے بس اک جگہ پر رکے ہوئے ہیں

میں سارے پچھلے دنوں کی باتوں کو جانتا ہوں

میں آنے والے دنوں سے واقف

کہ میری چشم جہان دیدہ میں کوئی حیرانی اب نہیں ہے

یہ میرے بٹوے میں سب ممالک کی ریز گاری بھری ہوئی ہے

مگر ہے دل اک غریب کی جیب جیسے خالی

میں چلتے چلتے نظام شمسی کے ایسے نکتے پر آگیا ہوں

جہاں پہنچ کے  یہ میرا سایہ

ہزار رستوں پہ چل رہا ہے

ماخذ

شعری مجموعہ: نرمان،افتخار نسیم،صفحہ نمبر127

******

نیا سال

نئے سال کی جنوری کی یہ پہلی

میرے در پہ پھر دستکیں دے رہی ہے

 مجھے یاد ہے اب بھی پچھلے برس جب

نئے دن کے آغاز پر گھر سے باہر

قدم میں نے رکھا

 تو لوگوں سے پوچھا

’’میرا راستہ کون سا ہے‘‘

 سبھی نے نفی میں سروں کو ہلایا کہ ہم بے خبر ہیں

ہمیں تو خود اپنے گھروں کی خبر تک نہیں ہے

 ہمیں تو یہی علم ہے آج ہم نے

 گھروں کو منی آرڈر بھیجنا ہے

کئی میل نادیدہ دیواریں بن کر کھڑے ہیں

 وہ بچے، وہ فیسیں ،کتاب اور کپڑے

وہ بیوی کی اک مسکراہٹ کی خاطر

 فقط اک مہینے کی اجرت کے بدلے

جدائی کے دن اور جدائی کی راتیں

 جدائی کی صبحیں، جدائی کی شامیں

 شرائط کی مضبوط زنجیر پہنے ہوئے

ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے کاغذ کے اک صاف کونے میں

سب کچھ سمجھتے ہوئے دستخط کر دئیے تھے

ملوں کے دھوئیں اور ڈیوٹی کے اوقات نے

اور قید جدائی نے مل کر ہمیں وقت سے

 قبل ہی کتنا بوڑھا سا نادار سا کر دیا ہے

کبھی ہم یہاں مر گئے تو بس اک تار ہو گا

ہمارے گھروں کیلئے ساری محنت کا حاصل

 ہمارے بدن سے کئی طالب علم

استاد کی کوششوں سے

جو محسوس کرتے ہیں

دیکھا نہیں ہے

اُسے دیکھنے کیلئے کتنی کاوش کریں گے

کہ  اس جلد کی تہہ میں کیا ہے

کبھی لوٹ کر  جو گھروں کو گئے تو

ہمارے وہ ننھے سے بچے تنومند بیٹوں کی صورت

ملاقات اول میں اک اجنبی کی طرح پیش آئے

تو ہم کیا کہیں گے

ہمیں کس سے ملنا ہے

ہم کون ہیں

ہمیں کیا خبر ہے تمہاری ڈگر کون سی ہے

ہمیں تو یہی علم ہے کہ فلاں بس فلاں فیکٹری

کے قریں جا کے رکتی ہے

ہم نے اتر ناو ہیں ہے تمہیں کیا بتا ئیں

یہ احوال میں نے سنا تو ڈرابھی

مراجسم لرزامرے ہاتھ کانپے

میں چونکا یہ سب لوگ کیا کہہ رہے ہیں

ذرا سا قدم جو بڑھایا

میرے خواب تلوؤں میں چبھنے لگے تھے

میں واپس پلٹ اپنے گھروں لوٹ آیا

قدم پھر کبھی گھر سے باہر نہ رکھا

یونہی سال گزرا

نئے سال کی جنوری کی یہ پہلی

میرے در پہ پھر دستکیں دے رہی ہے

میں در کھول دوں یا ۔۔۔۔۔۔۔

یہی بے حسی خود پہ طاری رکھوں

ماخذ

شعری مجموعہ: نرمان،افتخار نسیم،صفحہ نمبر135

******

میں بھکاری ہوں داتا

میں بھکاری ہوں داتا

مجھے امن کی بھیک دے

یہ زمیں میرا کشکول ہے

میں بھکاری ہوں داتا

مجھے امن کی بھیک دے

میں پرندوں کے نغموں کا متلاشی ہوں

مجھ کو بچوں کی کلکاریاں چاہیئں

مجھ کو طیاروں کی گڑ گڑاہٹ نہ دے

مجھ کو جھرنوں کے بہتے ہوئے گیت دے

میں ہوں بے رنگ مجھ کو دھنک چاہیے

مجھ کو خوں سے بھری شاہراہیں نہ دے

مجھ کو صحرا کی خاموش باد نسیم

مجھ کو تو اونٹوں کے پاؤں کے گھنگھرو

کی آواز دے

میرے کاسے میں ایٹم بموں کو نہ ڈال

میں ازل کا بھکاری مجھے وقت کی قید کوئی نہیں ہے

میں ہتھیلی میں پکڑی ہوئی ریت کی مثل

اس سے پھلستا ہوا

تنہا چلا جا رہا ہوں

 ہر اک سلطنت کی حدوں سے گزرتا ہوں

میں بڑے شہروں کی شاہراہوں سے

میں قصبوں سے گاؤں سے ویرانوں سے

چپ سے چلا جا رہا ہوں

ان کو آباد رکھنا

ان کی آبادی کی بھیک کو

میری جھولی میں ڈال

سب کو توپوں کی

میزائلوں کی

نیپام کی گیس بم کی

 معاشی حسد کی نظر سے بچا

جو جہاں ہے اسے شانتی دے

ہر اک دل قناعت کے

بھائی چارے کے جذبے سے بھر دے

میرا کوئی مذہب نہیں ہے

مرا رنگ کوئی نہیں ہے

میری نسل انساں ہے

میں بھکاری ہوں داتا

مجھے امن کی بھیک دے

ماخذ

شعری مجموعہ: نرمان،افتخار نسیم،صفحہ نمبر105

******

کلر بلائینڈ

(COLOR BLIND)

مجھ کو ان سب رنگوں کی پہچان کہاں ہے

 میں نے کالے کو گورے سے 

کبھی الگ نہیں سمجھا

ہجرت کدۂ دنیا میں

میں انصار ہوں ایسا

جسکو عزیز ہنود و یہود

میرا اپنا رنگ بھی

ان لوگوں کے تعصب حسد اور کم نظری

کے زہر کو پی کر نیلا ہوتا جاتا ہے

جب بھی میں

چالیسویں منزل سے لوگوں کو

نیچے چلتا دیکھتا ہوں تو

وہ بونے سے لگتے ہیں

سوچتا ہوں

میں بھی تو ان لوگوں کو

اک بونا ہی لگتا ہوں

دستر خوان پر رکھے ہوئےکھانے مجھ کو

قحط زدہ لوگوں کی قطاریں لگتی ہیں

بادل سے بجلی چمکے تو

مجھ کو ایٹمی حادثوں کی یادیں آتی ہیں

کیسے میں اپنی بینائی

گیس سے اندھے ہونے والے لوگوں

میں تقسیم کروں

امن کہاں ہے

وسطی امریکہ کے لوگو

امن کہاں ہے

کتنی پرانی تہذیبیں

عہد نو کے نظریوں سے مرتی مٹتی جاتی ہیں

مشرق وسطیٰ ! کیا تاریخ ہمیشہ خون سے

لکھی جاتی ہے

کتنے عربی اور عجمی اقوام متحدہ کے اجلاس میں

بیٹھے

اپنی اپنی قوم کے فیصلے کرتے ہیں

لیکن کسی نے اُس بدو سے پوچھا ہے

جس کی ساری دنیا اُس کے اونٹ پہ لدی ہوئی ہے

اُس کو کیا معلوم وال سٹریٹ کا بھاؤ کیا ہے

دنیا کتنی تیزی سے

مرے ہوئے اور مرتے ہوئے لوگوں کو

دفنا جاتی ہے

قبروں سے نکلے ہوئے

ہاتھ گواہی ہیں

کاش یہ میری طبعی عمر میں ہی ممکن ہو

جتنے اندھے ہیں اُن کو

بینائی مل جائے

جتنے دیدہ ور ہیں

وہ سب کلر بلائینڈ ہو جائیں

ماخذ

شعری مجموعہ: نرمان،افتخار نسیم،صفحہ نمبر99

******

ہجرت

چلو آؤ شہر نحوست سے نکلیں

 یہاں پر ہمارے لئے کچھ نہیں ہے

زمیں ہر جگہ ہے

کہ آغوش مادر میں وسعت بہت ہے

جہاں جائیں گے یہ زمین کا تعلق

ہمیں زندہ رہنے کی ترغیب دیتا رہے گا

یہ سونا اگلتی ہوئی کھیتیاں

جن کی زردی نے ہم کو

یہ زنجیر دی ہے

اسے کاٹ دیں

افق سے پرے بھی تو سونا سا بکھرا ہوا ہے

نہ جانے وہاں کی زمیں کتنی زرخیز ہو گی

یہاں کی زمینوں کے چشموں کا پانی

تو جلنے لگا ہے

یہاں کی فضا میں مجھے

گدھ اُڑتے نظر آرہے ہیں

چلو ملک در ملک دیکھیں

نہ جانے کہاں کی زمیں ہم کو آغوش مادر

کی گرمی سے کندن بنادے

کہ ہم نسل در نسل قحط محبت کے

مارے ہوئے ہیں

 ہمارا کوئی تجربہ بھی کسی کام آتا نہیں ہے

چلو آؤ کچھ کرنے کی دھن میں نکلیں

 کہ یہ نرم جذبے ہی زادِ سفر ہیں

چلو آؤ شہر نحوست سے نکلیں

یہاں پر ہمارے لئے کچھ نہیں ہے

ہمیں وقت نے حکم ہجرت دیا ہے

ماخذ

شعری مجموعہ: نرمان،افتخار نسیم،صفحہ نمبر96

******

غزلیں

نام بھی جس کا زباں پر تھا دعاؤں کی طرح

وہ مجھے ملتا رہا نا آشناؤں کی طرح

آ کہ تیرے منتظر ہیں آج بھی دیوار و در

گونجتا ہے گھر میں سناٹا صداؤں کی طرح

وہ شجر جلتا رہا خود کس کڑکتی دھوپ میں

جس کا سایہ تھا مرے سر پر گھٹاؤں کی طرح

جھک رہے تھے باغ کے سب پھول اس کے سامنے

گھاس پر بیٹھا تھا وہ فرماں رواؤں کی طرح

میں بھلا کیسے اسے اک اجنبی کہہ دوں نسیمؔ

جس نے دیکھا تھا پلٹ کر آشناؤں کی طرح

********

شام سے تنہا کھڑا ہوں یاس کا پیکر ہوں میں

اجنبی ہوں اور فصیل شہر سے باہر ہوں میں

تو تو آیا ہے یہاں پر قہقہوں کے واسطے

دیکھنے والے بڑا غمگین سا منظر ہوں میں

میں بچا لوں گا تجھے دنیا کے سرد و گرم سے

ڈھانپ لے مجھ سے بدن اپنا تری چادر ہوں میں

اب تو ملتے ہیں ہوا سے بھی در و دیوار جسم

باسیو مجھ سے نکل جاؤ شکستہ گھر ہوں میں

میں تمہیں اڑتے ہوئے دیکھوں گا میرے ساتھیو

میں تمہارا ساتھ کیسے دوں شکستہ پر ہوں میں

میرے ہونے کا پتہ لے لو در و دیوار سے

کہہ رہا ہے گھر کا سناٹا ابھی اندر ہوں میں

کون دے گا اب یہاں سے تیری دستک کا جواب

کس لیے مجھ کو صدا دیتا ہے خالی گھر ہوں میں

********

اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا

آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا

جس گھڑی آیا پلٹ کر اک مرا بچھڑا ہوا

عام سے کپڑوں میں تھا وہ پھر بھی شہزادہ لگا

ہر گھڑی تیار ہے دل جان دینے کے لیے

اس نے پوچھا بھی نہیں یہ پھر بھی آمادہ لگا

کارواں ہے یا سراب زندگی ہے کیا ہے یہ

ایک منزل کا نشاں اک اور ہی جادہ لگا

روشنی ایسی عجب تھی رنگ بھومی کی نسیمؔ

ہو گئے کردار مدغم کرشن بھی رادھا لگا

*******

وہ ملا مجھ کو نہ جانے خول کیسا اوڑھ کر

روشنی گم ہو گئی اپنا ہی سایا اوڑھ کر

نیند سے بوجھل ہیں پتے اونگھتے سے پیڑ ہیں

شہر سویا ہے خموشی کا لبادہ اوڑھ کر

ڈھونڈھتا پھرتا تھا میں ہر شخص کے اصلی نقوش

لوگ ملتے تھے مجھے چہرے پہ چہرا اوڑھ کر

منجمد سا ہو گیا ہوں خنکیٔ احساس سے

دھوپ بھی نکلی ہے لیکن تن پہ کپڑا اوڑھ کر

رنگ سارے دھو گیا ہے رات کا بادل نسیمؔ

اور گھر ننگے ہوئے پانی برستا اوڑھ کر

********

نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں در کھلا رکھنا

گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا

ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے

زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا

نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگ ربط بن جائے

وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا

اتار پھینک دے خوش فہمیوں کے سارے غلاف

جو شخص بھول گیا اس کو یاد کیا رکھنا

ابھی نہ علم ہو اس کو لہو کی لذت کا

یہ راز اس سے بہت دیر تک چھپا رکھنا

کبھی نہ لانا مسائل گھروں کے دفتر میں

یہ دونوں پہلو ہمیشہ جدا جدا رکھنا

اڑا دیا ہے جسے چوم کر ہوا میں نسیمؔ

اسے ہمیشہ حفاظت میں اے خدا رکھنا

*******

یوں ہے تری تلاش پہ اب تک یقیں مجھے

جیسے تو مل ہی جائے گا پھر سے کہیں مجھے

میں نے تو جو بھی دل میں تھا چہرے پہ لکھ لیا

تو ہے کہ ایک بار بھی پڑھتا نہیں مجھے

ڈھلتے ہی شام ٹوٹ پڑا سر پہ آسماں

پھر میرا بوجھ لے گیا زیر زمیں مجھے

تعبیر جاگتی ہوئی آنکھوں کو کیا ملے

اک خواب بھی تو شب نے دکھایا نہیں مجھے

کندہ ہے میرا نام جہاں آج بھی نسیمؔ

پہچانتے نہیں اسی گھر کے مکیں مجھے

********

Leave a Reply