اسماء حسن:ہانگ کانگ میں اردو کی بلند آواز
مہوش نور
ریسرچ اسکالر، جواہرلعل نہرویونیورسٹی، نئی دہلی
اسماء حسن کا تعلق پاکستان کی راجدھانی اور مشہور ومعروف شہر اسلام آباد سے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے اردو ادب میں پوسٹ گریجویشن میں ضلعی سطح پر پہلی پوزیشن حاصل کرنے پرانہیں گولڈ میڈل سے سرفراز کیا گیاتھا۔ بعد ازاں اپنے تعلیمی سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ایم فل میں ”اقبالیات“پر تحقیقی کام شروع کیا۔ لیکن ہانگ کانگ میں مستقل طور پر منتقلی کے بعد نامساعد حالات کی وجہ سے تعلیمی سلسلے کو بیچ راہ میں ہی منقطع کرنا پڑا ۔ لیکن عنقریب اپنے اس ادھورے کام کو مکمل کرنے کی خواہشمند ہیں۔ اس دوران آپ کاتحقیقی کام بدستور جاری ہے۔اسماء حسن نے پاکستان کی ایک ایسی شخصیت اور مشہور و مقبول شاعر سید شہزاد حسن ظاہر پر تحقیقی مقالہ لکھا جن پر اس سے پہلے کسی بھی اہل قلم کی تحریر منظر عام پر نہیں آئی تھی۔اس مقالے میں شاعر کی شخصیت اور فن پر بڑے مدلل اور مفصل انداز میں بحث کی گئی ہے۔ موصوفہ کا یہ مقالہ”سید شہزاد حسن ظاہر:حیات و فن“کے نام سے کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے اور پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں موجود ہے۔ان کی یہ تحقیق اس اعتبار سے بھی کافی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ مقالہ نہ صرف اردو ادب میں نئی نسل اور ریسرچ اسکالرس کے لیے بہترین حوالہ ثابت ہو گا بلکہ پاکستان کے معروف شاعر سید شہزاد حسن ظاہرؔپر مزید تحقیقی کام آگے بڑھانے میں کافی مددگار ثابت ہوگا۔
اسماء حسن میں تحقیق کے ساتھ ساتھ تنقیدی شعورو صلاحیت بھی ہے اس لیے وہ ایک لمبے عرصے تک تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھتی رہیں،منفرد انداز میں لکھے گئے تحقیقی اور تنقیدی مضامین نے حلقہ احباب میں ان کی اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ادبی اورتحقیقی کام کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی مختلف ادبی فورمز اور آن لائن جرائد میں اپنے تنقیدی اور تجزیاتی مضامین کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔
اسماء حسن بنیادی طور پرافسانہ نگار ہیں۔اسماء کی طبیعت اردو ادب کی مشہورو مقبول صنف افسانہ نگاری کی طرف بچپن سے ہی مائل تھی وہ کہانیاں لکھتیں اوراسے ڈائری میں محفوظ کر لیتیں لیکن ترک و طن کے بعد اسماء حسن نے افسانہ نگاری کو مستقل طو رپر اپنا لیا اورنہ صرف اپنایا بلکہ بہترین افسانے بھی تخلیق کیے۔ موصوفہ عام طور پر علامتی اور تجریدی افسانے لکھتی ہیں۔حساس طبیعت کی مالک اسماء حسن ہمیشہ آفاقی اور حساس موضوعات پر قلم اٹھاتی ہیں،چاہے وہ کراہتی یا شرمسار ہوتی انسانیت ہویا ظالم حکمرانوں کی سفاکیت ہو یا پھر عشق کی پامالی کی داستان ہو ہر موضوع پر ان کا قلم کاغذ پر جذبات و احساسات بکھیرنے لگتا ہے۔
اسماء حسن کی تخلیقات اب تک ہندو پاک کے مختلف و معتبر ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہو چکی ہیں۔ بہار اردو ادکامی(انڈیا) کے ماہنامہ ”زبان وادب“ میں متعدد تخلیقات شائع ہوئیں۔ اسی رسالے کے لیے ادارتی نوٹ بھی لکھنے کا موقع ملا۔ اس کے علاوہ ماہنامہ ”گلشن خواتین“ (مالیگاؤں، انڈیا)، ”دربھنگہ ٹائمز“ (دربھنگہ، انڈیا)،”جرس“ (پاکستان)، مختلف ٓان لائن رسالوں میں متعدد افسانے، تحقیقی و تنقیدی مضامین و مقالات اور مائکرو فکشن شائع ہوچکے ہیں۔ اسماء حسن چونکہ تحقیق اور تنقید کی طالبہ ہیں اس لیے ان کے تنقیدی اور تحقیقی مضامین وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہتے ہیں اور بہت جلد ان کا ایک افسانوی مجموعہ، ایک ناول اور تحقیقی و تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب منظر عام پر آنے والی ہے۔اسماء حسن کی اردو خدمات اور بہترین کاوش کے لیے مبارکبا اور نیک خواہشات۔
موجودہ ظالم و جابر سیاسی نظام کاآئینہ اسماء حسن کے ”شہر بتاں“ افسانے میں ایک ایسے ملک کو موضوع بنایا گیا ہے جہاں کے ظالم حکمراں کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا۔یعنی اس ملک کے ایک ایک باشندے کی سانسوں پر ان کی حکومت ہے۔ اپنی طاقت کے غرور میں یہ ظالم حکمراں انسانیت بھول چکے ہیں اور لوگوں کو اپنا غلام بنا کر ان پر طرح طرح کے ظلم و جبر کرتے ہیں اور جب کوئی ان کے خلاف آواز اٹھاتا ہے یا کوئی سوال کرتا ہے تو ان کو غلام یا قیدی بنا کر ان کے ہونٹوں کو کچھ اس طرح سل دیا جاتا ہے کہ وہ کچھ بول ہی نہ سکیں۔لیکن جب اتنے ظلم و جبر کے باوجود یہ آواز کو دبانے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو ان آوازوں کو وہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتے ہیں۔لیکن یہ نہیں معلوم کہ انقلاب کی یہ آواز اتنی بلند ہوتی ہے کہ یہ جتنا دبائی جاتی ہے اتنی ہی زیادہ بلند ہوتی جاتی ہے جیسا کہ اس افسانے میں دکھایا گیا ہے۔
”شہر بتاں“ افسانہ ایک علامتی افسانہ ہے اور علامتوں کے ذریعہ ہی ایک ظالم سامراج کی عکاسی کی گئی ہے۔ افسانہ کافی دلچسپ ہے۔ افسانے کا آغاز ہی قاری کو تجسس میں ڈال دیتا ہے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جن پر اتنے ظلم ڈھائے گئے ہیں کہ ان کے متحرک جسم کو ایک زندہ لاش میں تبدیل کر دیاگیا۔ وہ کون سا ظلم ہے جس کے ڈھائے جانے پر لوگوں کی چیخیں اتنی دردناک اور دل خراش ہیں کہ لوگ اپنی قوت سماعت سے محروم ہو نے کی دعا کرنے لگتے ہیں، قصور کیا تھا؟ جن کی پاداش میں ان کا ہاتھ کاٹ کر اور سیسہ پگھلا کر ان کی آنکھوں میں ڈالا جا رہا تھا۔ افسانہ اتنا دلچسپ ہے کہ پورا افسانہ نقل کرنے کادل کررہا ہے لیکن یہاں افسانے کے آغاز کا اقتباس پیش خدمت ہے جس سے قاری متاثر ہو کر ایک ہی نشست میں افسانہ پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے:
”خوابیدہ محل کے وہ لوگ جن کے ہونٹوں کو موٹی سوئی اور دھاگہ لے کر سی دیا گیا تھا، جہاں زر خرید روحیں قید بامشقت کاٹ رہی تھیں اور فرمانرواؤں کے پاؤں تلے دھرتی ماں بھی کانپ رہی تھی۔ وہ وہاں پہونچے تھے تو زندہ لاشیں ادھر اُدھر گھوم رہی تھیں، ڈرے سہمے اور مٹی میں اٹے چہروں نے جب انہیں دیکھا تو بھاگتے ہوئے، کسی نہ کسی اوٹ میں پناہ لینے لگے۔ نہ تو کسی نے ان پر پتھر اچھالے اور نہ ہی ان کے متحرک چست قدموں کو زنجیر پہنائی گئی وہ آگے بڑھتے رہے تو زندہ لاشیں پیچھے ہٹتی رہیں، ان کے سرخ و سفید چہروں پر کسی مہیب پرچھائی کا بسیرا صاف دکھائی دے رہاتھا۔ ان ’بائیس‘(22) نے کچھ دور پہونچ کر ایک خاص مقام پر خیمے گاڑنے شروع کر دیئے تھے۔ کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ ان کی دھرتی ماں پر قدم رکھنے کی لغزش میں کوئی ان سے جرأت استفسار کرتا، وہ کیلوں پر ضرب لگاتے ہوئے خیمے گاڑتے چلے جا رہے تھے، زور دار آوازیں لوگوں کے کانوں تک پہنچتیں تو وہ اپنی قوت سماعت سے محروم ہونے کی دعا کرنے لگتے، ان کے لیے اس سے زیادہ مناسب جگہ اور کوئی نہ تھی، جہاں سب کے ہونٹوں کے پیچھے قفل ابجد کا سا راز پوشیدہ تھا، جن کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے اور سیسہ پگھلا کر ان کی آنکھوں میں ڈال دیا گیا تھا،ایسی زندہ لاشیں دیکھ کر وہ مطمئن ہو چلے تھے کہ وہ بالکل صحیح مقام پر ڈیرے ڈالنے والے ہیں۔“
یہ افسانہ سامراج طاقتور کے خلاف ایک احتجاج ہے۔ اس کہانی میں افسانہ نگار نے ظلم و ستم کی داستان بہت خوب صورتی کے ساتھ پیش کی ہے۔ ”شہر بتاں“ نام ہی اپنے آپ میں دل جیتنے والا نام ہے۔ جیسا کہ میں پہلے ہی عرض کر چکی ہوں کہ یہ ایک علامتی افسانہ ہے۔ اس افسانہ میں بت خاموشی، تاریکی، گونگے، بہرے اور اندھے پن کی علامت ہے۔ انہیں علامتوں سے افسانہ نگار نے اپنی کہانی کا تانا بانا بنا ہے۔ ایک عجیب و غریب بستی جہاں بے حس انسان بغیر چوں چراں اپنی زندگی بسر کرنے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں۔ اس عافیت کے پیچھے بھی ایک درد ناک داستان ہے۔ اس دردناک داستان میں ظالم نظام اور وحشی صفت انسان یایوں کہہ لیں کہ ظالم وجابر سیاسی نظام نے ان قبائل پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی تھی۔ اسی دوران بائیس افراد کی تعداد نے اس بستی میں قیام کرنے کی غرض سے پڑاؤ ڈالا۔ یہ بائیس افراد ایک طرح سے نئے حوصلے کی شکل میں سامنے آئے۔ جن کے حوصلے کی وجہ سے مقفل ہونٹوں میں ہلکی ہلکی جنبش ہونے لگی اور انقلاب کی کرنیں آہستہ آہستہ زندہ لاشوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر رہی تھی۔مگر خوف کا ناگ اب بھی ان کے دلوں میں پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔افسانہ نگار مزید لکھتی ہیں:
”آفتاب کی کرنیں چہار سو پھیل رہی تھیں اور زندہ لاشوں پر مسکراہٹ پھیلا رہی تھیں مگر وہ لوگ زندان خانے کے ایسے مقید تھے، جنہیں صدیوں بعد سورج کی رفاقت کا موقع ملے تو وہ اس کی تمازت اورحدت کو برداشت نہ کرپائیں۔ کوئے بتاں کے وہ مکین پہلے سے بھی زیادہ سہم گئے اور اپنے بچوں کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کسی نہ کسی اوٹ میں پناہ لینے لگے، شاید وہ پھر سے جذبات فروشی کا سودا ہوتا دیکھنا نہیں چاہتے تھے، وہ انسانیت سوز زندگی کے پھر سے متحمل نہیں ہو سکتے تھے، جہاں زندہ انسانوں کی کھالیں کھینچوا دی جاتی ہیں، جہاں حق بات کہنے کا خراج متخرفہ نہ جانے کتنی دہائیوں تک ادا کرنا پڑتا ہے۔“
لیکن جب انقلاب کے لیے ایک بار آواز اٹھائی جاتی ہے تو وہ آواز تھمنے کے بجائے بلند اور تیز ہوتی جاتی ہے چاہے اس کے لیے جان کی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔اسما حسن کے اس افسانے کے اختتامیہ حصے میں حبیب جالبؔ کی نظم ”اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو“بالکل صادق نظر آتا ہے:
جینے کا حق سامراج نے چھین لیا
اٹھو مرنے کا حق استعمال کرو
ذلت کے جینے سے مرنا بہتر ہے
مٹ جاؤ یا قصر ستم پامال کرو
شہربتاں کے افراد نے اب دھیرے دھیرے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش شروع کردی تھی۔ یعنی اب ان کے اندر بیداری پیدا ہونے لگی تھی۔بولنے کی کوشش میں ان کے ہونٹوں کی سیلائی ادھڑنے لگی تھی۔ اب انہیں مزید ذلت و رسوائی اور ظالم سامراج کے سامنے سر جھکانے والی زندگی برداشت نہیں تھی۔اور اب اس شہر کی ہر ایک گلی اور کوچوں سے لوگ ہتھیلی پر اپنی جان کو لے کر بے خوف قصر ستم کو پامال کرنے نکل پڑے تھے۔ افسانہ نگار لکھتی ہیں:
”وہ سب لوگ اس’لڑکے‘کی طرف مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے، مگر وہ دبک کر بیٹھا رہا، کچھ بینا و دانا نے اس کے ہونٹوں کی ادھڑی سلائی دیکھ لی تھی! اسی اثنا میں دور کہیں سے ایک آواز سنائی دی۔
”میں گواہی دیتا ہوں۔“
اور ساتھ ہی آواز دم توڑ گئی، یہ سنتے ہی اس’لڑکے‘ کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، اس نے ہونٹوں کی سلائی کو پکڑ کر کچھ یوں ادھیڑا جیسے اس کے سامنے اس کے ’ابی‘کی کھال کو کھینچ کر اتار دیا گیا تھا۔ڈرے سہمے ہوئے شہربتاں والے محو حیرت تھے، سکتہ کسی بھوت پریت کی طرح سایہ فگن تھا۔ اس ’لڑکے‘نے گھر کی دہلیز سے باہر ننگے پاؤں قدم رکھ دیا تھا۔ وہ اس سمت بھاگنے لگا جہاں سے ’میں گواہی دیتا ہوں‘ کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں اور دم توڑتی چلی جا رہی تھیں، بائیسویں گواہی کے دم توڑتے توڑتے وہ ’لڑکا‘ وہاں پہونچ چکا تھا، ظالم سامراج قہقہے لگاتے ہوئے اپنی فتح کا جشن منا رہے تھے، وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید اب کوئی گواہی باقی نہ رہی ہو، مگر انہیں کیا معلوم کہ تئیسویں گواہی ابھی باقی تھی۔
فضا میں پھر سے ایک زور دار آوازگو نجی تھی۔
”میں گواہی دیتا ہوں‘‘۔نشانہ باندھنے والوں نے دیوانہ وار نشانے لگانے شروع کئے مگر کوئی نشانہ اپنی سمت متعین نہ کر سکا۔ کیوں کہ آواز اب چاروں طرف سے سنائی دے رہی تھی۔“
اس کہانی میں قرآن پاک کا ایک واقعہ یعنی سورہ کہف کی طرف بھی اشارہ ہے۔ اصحاب کہف ایک ظالم و جابر حکمراں کے خوف سے ایک غار میں پناہ لیتے ہیں اللہ پاک اصحاب کہف پر نیند طاری کر دیتا ہے۔ وہ تمام لوگ گہری نیند سو جاتے ہیں۔ جب ظالم حکمراں نیست و نابود ہو جاتا ہے تو اللہ پاک انہیں نیند سے بیدار کردیتاہے۔ اصحاب کہف تقریباً 309برس سوتے رہے۔ ان کی تعداد کا تعین مشکل ہے اس کہانی میں بھی کہانی کار نے علامتی انداز اختیار کرتے ہوئے ایک قوم کی عرض گزاشت بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس کے علاوہ یہ کہانی ہر اس ملک کی صورت حال کا احاطہ کرتی ہے جہاں ظالم و جابر حکمراں اپنے حق و انصاف کے لیے اٹھنے والی آواز کو خاموش کر دیتا ہے۔ یہاں کچھ ملک کو مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ہانگ کانگ،وہاں پر بھی عوام کو کھل کر اپنی رائے دینے کی آزادی نہیں ہے۔ ہنوستان بھی موجودہ دور میں جن ظالم حکمرانوں کے ہاتھوں برباد ہو رہا ہے اور ساتھ ہی اس ظلم کے خلاف، حق اور انصاف کی آواز بلند کرنے والوں پر جس طرح کے مظالم کیے جا رہے ہیں، ان کے ہونٹوں کو جس طرح مقفل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کہانی ہندستان کی روح یعنی دستورِ ہند کی پامالی سے بھی مزین ہے۔ جہاں نہ لب کھولنے کی آزادی دی جارہی ہے اور نہ ہی ہندستانی اقلیت کو آرام و سکون میسر ہے۔سی۔ اے۔اے، این۔ آر۔ سی، اور این۔ پی۔آر کے قانون میں تبدیلی گویا دستورِ ہند کی روح کے منافی ہے۔ذات پات اور رنگ ونسل کی بنیاد پر شہریت کا تعین کسی بھی جمہوری ملک کے لیے عذاب سے کم نہیں ہے۔گویا سی۔ اے۔ اے ایک ایسا کالا قانون ہے جس کی وجہ سے ہندستان میں مقیم اقلیتی طبقوں کی شہریت مشکوک ہو سکتی ہے۔انہیں مشکوک قرار دے کر قید خانے میں ڈالا جاسکتا ہے۔حالاں کہ ہندستان کی تاریخ مسلمانوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے۔ہندستان میں مقیم اقلیتی طبقہ کے آبا و اجداد نے ہندستان کی آزادی کی لڑائی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔ تقسیم ہند میں بھی مسلم قوم نے ہندستان ہی کو ترجیح دی تھی۔کچھ متعصب قسم کے افراد ملک کی گنگا جمنی تہذیب، قومی و ملی یکجہتی اور جمہوری نظام کو توڑنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو اس کے ہونٹوں کو موٹی سوئی اور مضبوط دھاگے سے سیل کر قید خانے کے جان لیوا اندھیروں میں قید کر دیا جاتاہے۔ اس تاریک اندھیرے میں نہ جانے کتنے معصومو ں اور مظلوموں نے دم توڑ دیا مگر ظالم حکمراں کے دلوں پر ایک خراش تک نہ آئی۔ ملک کی دیگر ریاستوں کی بہ نسبت جموں
وکشمیر کی حالت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اسماء حسن کی اس کہانی میں کشمیر کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔اسی پس منظر میں افغانستان، فلسطین، شام، یمن، لیبیا، چیچینا وغیرہ کوبھی دیکھا جاسکتا ہے جہاں نسل در نسل میزائل اور راکٹ سے ہلاک ہورہے ہیں۔ انسانی جانوں کی قیمت گویا کیڑے مکوڑوں سے بھی کم تر ہے۔انسانیت کی دہائی دینے والے ممالک سب سے زیادہ انسان اور انسانیت کا دشمن ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام اپنی اصل طاقت کو پہچان کر اتحاد کا مظاہرہ کریں، کسی نہ کسی دن انقلاب کے ساتھ تبدیلی آئے گی۔ اسماء حسن کا حالات حاضرہ پر ایک بہترین علامتی افسانہ ہے جس میں صدیوں کی دل خراش داستانیں روپوش ہیں۔ان عجیب و غریب اور انسانیت سوز داستانوں میں امید کی ایک کرن نے ظالم و جابر حکمراں کی ہڈیاں تک ہلا کررکھ دی۔ عوامی طاقت سب سے بڑی اور مضبوط طاقت ہوتی ہے۔ اس لیے عوام الناس اس افسانے کی علامتی پہلو سے استفادہ کرتے ہوئے ظالم وجابر حکمراں کی خبر گیری کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ”سیاہ بختی“، ”شب یلدا“ وغیرہ قابل ذکر افسانے ہیں۔ جن میں مختلف اور نئے موضوعات کو پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا پلاٹ عمدہ اور واقعات میں ربط قائم ہے۔ عام فہم، شستہ زبان اور خوبصورت انداز بیان میں لوگوں کی زندگی اور دلوں پر لگنے والے زخم، ان کے مسائل اور ان کی خوشیوں کو کہانی کے پیراہن میں ڈھال کرکچھ یوں لکھتی ہیں کہ قارئین ایک طویل وقفے تک کہانیوں میں کھویا رہ جاتا ہے۔ایک کامیاب کہانی کی یہی پہچان ہوتی ہے۔نئی بستیوں کے افسانہ نگاروں کی ایک طویل فہرست ہیں جن میں اسماء حسن کی کہانیاں منفرد مقام حاصل کرنے میں بہت جلد کامیاب ہوں گی۔
Email: mahwashjnu10@gmail.com