You are currently viewing  اردو زبان وادب اور ہندستانیت

 اردو زبان وادب اور ہندستانیت

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین

ہندستانی زبانوں کا مرکز ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی

اردو زبان و ادب اور ہندستانیت

            اردو محض ایک زبان ہی نہیں بلکہ یہ ایک تہذیب بھی ہے۔یوں تو دنیا کی تمام زبانیں کسی نہ کسی تہذیب کی پیدوار ہوتی ہیں کیونکہ زبان و ادب کے لیے کسی خاص خطے کا ہونا ضروری ہے۔ جو زبان جس خطے اور علاقے کی ہوتی ہے اسی خطے اور علاقے کی صوتی خصوصیات ، اس علاقے کی استعاراتی اور تلمیحی لفظیات اس میں موجود ہوتی ہے۔ اسی لیے زبان اپنی جائے پیدائش کی تہذب و ثقافت کی ترجمان ہوتی ہے۔ لیکن اردو کاامتیاز یہ ہے کہ اِس کا خطہ ، اِس کا علاقہ بہت وسیع ہے۔ یہ ہندستانی زبان ہے بلاشبہ ہندستانی زبان ہے۔ لیکن یہ آج کے ہندستان کی سر حدوں سے پرے ہے۔ اس کا علاقہ پورا بر صغیر ہے۔بلکہ بر صغیر کے ہمسایہ ممالک کی سرحدیں بھی اس کو چھوتی ہیں۔ اسی لیے اردو ایک ایسی تہذیب و ثقافت کی ترجمان ہے جس کا دائرہ اثر سر حدوں سے بھی پرے ہے۔ اس کادامن اتنا وسیع ہے کہ اس میں نہ صرف ہندستان کی مٹی کی خوشبو ہے بلکہ بر صغیر اور وسط ایشیائی تہذیب و ثقافت کی بوقلمونی اور رنگارنگی بھی اس میں موجود ہے۔ اردو ہندستان کی ان اہم زبانوں میں سے ایک ہے جس کا ظہور ہندستان کی مشترکہ تہذیب و ثقافت کے بطن سے ہوا۔یہ خالص ہند آریائی سلسلے کی ہندستانی زبان ہے جس میں ہندستانیت کے عناصر ہر جگہ دیکھے جاسکتے ہیں۔ یعنی بول چال سے لے کر عوامی ادب اور سنجیدہ ادب و شعر ہر جگہ ہندستانی عناصر موجود ہیں۔ اس لیے میں یہ کہتا ہوں کہ مشترکہ تہذیب و ثقافت کی بات کریں یا قومی یکجہتی کہ با ت کریں ، تو اردو میں قومی یکجہتی کی بات تو بعد میں آتی ہے۔ خود اردو قومی یکجہتی کی زبان ہے۔ ہندستان کی عظیم وراثتوں میں ’ اردو ‘ ایک مشترکہ وراثت ہے جو خود ہندستانیت اور قومی یکجہتی کی نادر مثال ہے۔ اس زبان کی پرورش و پرداخت میں ہندستان کی مختلف قوموں ، نسلوں نے حصہ لیا ،تو اس زبان کو سنورانے اور نکھارنے میں عربی، فارسی ، ترکی اور کئی دیگر زبانوں نے اہم کردار اداد کیا۔ اسی لیے اس زبان نے سنسکرت اور پراکرت سے لے کر اپ بھرنش اور کئی بولیوں کے رنگ رس سے خود کوثروت مند بنایا۔ عربی و فارسی کی روایات سے خود کو تیزی سے پروان چڑھایا۔ اس طرح یہ ہندستان کی ایک مشترکہ زبان بن کر ابھری اور مقبول عام ہوئی۔ فراق گورکھپوری نے اسی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا : سر زمینِ ہند پر اقوام عالم کے فراق قافلے آتے گئے ، ہندستاں بنتا گیا ان قافلوں کی داستان بھی عجیب و غریب ہے اور خوب ہے۔ ان قافلوں کی آمد سے پہلی دفعہ میل جول کی روایت شروع ہوئی۔حالانکہ ان سے پہلے آریا بھی ہندستان آئے مگر انھوں نے میل جول کی روایت قائم کرنے کے بجائے دراوڑ قوم کو ایک کونے میں محدود کرکے ہندستان کی تسخیرو تعمیر میں حصہ لیا۔ یقیناً ہندستان کی سر زمین پر آریوں کی آمد ایک نئے ہندستان کی تعمیر کی جانب ایک اہم قدم تھا۔ انھوں نے ہندستان کو جغرافیائی اور تہذیبی شناخت دی۔ وید ، پُران، اپنشد اور گیتا کے ذریعے الوہیت اور عبادت و عقیدت کا پیغام دیا۔اس طرح ہندستان آستھا اور عقیدت کی سر زمین بن گئی۔ لیکن ساتویں صدی عیسویں اور عہد وسطیٰ میں مسلمانوں کی آمد سے اس ہندستانی رنگ میں ایک نئے رنگ کا اضافہ ہوا۔ ایسا رنگ جس میں سارے رنگ یکجا ہوگئے اور ان سے مشترکہ رنگ و نور کی بنیاد پڑی۔ پہلی دفعہ ہندستان کا سامنا بیرونی حکمراں اوراسلامی تہذیب و ثقافت سے ہوا۔ یہ ضرور ہے کہ ابتدا میں ان کے درمیان تصادم اور مخاصمت کے شواہد بھی ملتے ہیں لیکن بہت جلد ایک ساتھ مل جل کر رہنے کی روایت کی ابتدا ہوئی۔ اس طرح ہندستان میں مشترکہ تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے۔ اس مشترکہ تہذیب کے عہد میں جس زبان نے ترسیل و ابلاغ کا کام کیا وہ کچھ حد تک فارسی اور بڑے پیمانے پر ہندوی یا ہندستانی نے کیا جو آگے چل کر ’ اردو ‘ کہلائی۔اسی لیے یہ کہنا بجا ہے کہ خود زبانِ ارود مشترکہ تہذیب کی پیداوار ہے اسی لیے اس زبان میں یکجہتی کے بیانیے زیادہ ملتے ہیں۔بلکہ یوں کہیں کہ اس میں ہندستانیت زیادہ ہے ۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اسی حوالے سے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ :

 ”دسویں گیارھویں صدی عیسوی یعنی مسلمانوں کی باقاعدہ آمد سے بہت پہلے سے سنسکرت کے تخلیقی سوتے خشک ہو چکے تھے۔ عوامی سطح پر ہر علاقے کی اَپ بھرنش کو قبولیت عامہ کا درجہ حاصل تھا۔ سنسکرت ایک مخصوص طبقہٴ اولیٰ کی زبان ہو کر رہ گئی تھی۔ گیارھویں صدی سے قبل ہی ایک ایسی رابطے کی زبان کا ہیولیٰ تشکیل پاچکا تھا جس نے ابھی ایک معیاری قسم کی تحریر ی شکل نہیں پائی تھی۔ اردو رسم الخط میں تقریباً ان تمام زبانوں کے الفاظ اور ان کی آوازوں کو ادا کرنے کی صلاحیت تھی جن کی جڑیں مختلف اَپ بھرنشوں، جدید آریائی زبانوں اور عربی، فارسی نیز وسط ایشا کی زبانوں میں پیوست ہیں۔ ہندوستان کی کسی بولی یا زبان بہ شمول سنسکرت اور موجودہ ہندی کے نظامِ اصوات میں یہ صلاحیت نہیں۔ کیوں کہ اردو نے ہندوستانی اَپ بھرنشوں کے نظامِ اصوات سے بھی پورا فائدہ اٹھایا ہے جس کے باعث اس کا نظام اصوات تمام دوسری زبانوں سے وسیع ہے۔ اس طرح اردو شاعری ہی نہیں اردو زبان بذاتِ خود قومی یک جہتی کی علامت کے طورپر ایک خاص تاریخی کردار ادا کرتی ہے۔“(مضمو ن قومی ےک جہتی اور اردو شاعری) پروفیسر عبد الحق نے اپنے مضمون میں بہت اچھی بات لکھی ہے کہ : ”ہماری ےاد داشت مےں کئی اہم تہذےبوں اور زبانوں کے اشتراک اور آوےزش کی متعدد مثالےں موجود ہےں۔ مگر ان کی کشا کش سے کوئی نئی زبان برآمد نہےں ہوئی۔ اردو تارےخ لسان کا عجوبہ ہے۔دوسرے لفظوں مےں صرف اردو کا اعجاز ہے جو تہذےبوں اور زبانوں کے اختلاط سے پےدا ہوئی، ےہ ہماری کم نگاہی ہے کہ اےسی زبان سے قومی ارتباط و ےکجہتی کی توقع کرتے ہےں جس کے خاک و خمےر مےں کئی عالم گےر تہذےبوں اور زبانوں کی روح شامل ہو۔ اردو کے علاوہ قومی اتحاد کی ترجمانی کی دوسری زبان کی نوشتہٴتقدیر نہ بن سکی۔“ ( مضمون اقبال ۔ قومی وحدت کے تناظر میں )

       اردو کی اس تخلیقی نوعیت کو ذہن میں رکھیں اور اردو ادب و شعر کے سرمائے کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اردو میں جذب وانجذاب کی صلاحیت دیگر ہندستانی زبانوں کے مقابلے سب سے زیادہ ہے۔ اسی لیے اردو شاعری میں ہندستانیت کا رنگ سب سے نمایاں ہے۔ جب ہم ہندستانیت کہتے ہیں تو۔ اس کامطلب ہے ملی جلی سنسکرتی یعنی مشترکہ تہذیب وثقافت ، جس میں ’ پُر امن بقائے باہمی‘ کا درس سب سے زیادہ ملتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اردو خالص ہندستانی زبان ہے ۔ اِس ہندستانیت کو اردو کے استعاراتی ، تلمیحاتی اور علامتی الفاظ و تراکیب میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ۔اردو زبان میں ہندستانی عناصر کی موجودگی سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اردو کے خمیر میں ہی یک جہتی کے عناصر موجو دہیں ۔ اردو کی ابتدائی تخلیقات کو دیکھیں تو ’کدم راؤ پدم راؤ‘سے اب تک کی تمام نثری اور شعری تخلیقات و تصانیف میں ہندستانیت کے عناصر ملیں گے۔اردو کی ابتدائی مثنویوں میں ہندستان کے قدیم عوامی اور مذہبی قصے او رحکایات کو جس طرح ہند- ایرانی رنگ میں پیش کیا گیا ہے کہ اس سے بھی ہندستان کی ملی جلی تہذیب سامنے آتی ہے ۔قصے ، حکایات اور فوق فطری عناصر کو داستانوی فضا میں پیش کرنے کا یہ انداز بھی یکجہتی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے ۔ کیونکہ اس وسیع وعریض ہندستان میں اسی طرح کے قصے ہر طرح کے معاشرے کے ذوق جمال کے لیے تسکین کے اسبا ب تھے۔ مظفر حنفی نے’ تنقیدی نگارشات ‘ میں دکنی مثنویات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے : ”اردو مثنویوں میں انسانی اقدار اور وسیع المشربی کی نہایت واضح اور روشن تصویریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ بہمنی عہد کے شاعر نظامی اردو کے پہلے مثنوی نگار تسلیم کیے جاتے ہیں۔ موصوف کی مثنوی کا نام  ’کدم راؤ، پدم راؤ‘ہی ہندو کرداروں سے اخذ کیا گیا ہے۔ ملّاوجہی کی مثنوی ”قطب مشتری“ کا ہیرو قطب شاہ ہے اور ہیروئن ” بھاگ متی“۔ میر تقی میر کی مثنویوں میں پرسُرام جیسے برہمن زادے ہیرو کی شکل میں سامنے آتے ہیں تو دیا شنکر کی ”گلزارِ نسیم“ میں مثنوی کا آغاز حمد، نعت اور منقبت سے ہوتا ہے نیز اس کا اختتام ہندو اور مسلمان کے مابین شادی پر کیا جاتا ہے۔ بلا مبالغہ اردو میں ہزاروں مثنویاں لکھی گئی ہیں اور کم و بیش سب ہی میں انسان دوستی، مذہبی رواداری، مساوات اور جمہوری مزاج جلوہ گر ہے۔“ اردو کی ابتدائی منظوم داستانوں کے بعد شاعری پر نظر ڈالیں اور لفظیات کی سطح پر بھی دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ یہ محض لفظ نہیں ہیں بلکہ ان لفظوں کے پورے معنیاتی نظام میں مشترکہ ہندستان بو ل رہا ہے ۔اردوکایہ اسلوب اور طرزِ بیان بذات خود یکجہتی کا نمونہ ہے۔اپنی بات ہم امیر خسرو سے شروع کرتے ہیں ۔ اب تک کے دستیاب حوالوں سے خسرو کے کلام ہی ہندوی کے پہلے نمونے ہیں۔ الحاقی کلام کو چھوڑ کر بھی دیکھیں تو خسرو نے اپنے پیرو مرشد سے والہانہ عشق کا اظہار بھی اسی ہندستانی رنگ میں کیا ہے جس رنگ میں ہندو عقیدت مند دیوی دیوتاؤں کے تئیں اظہار عقیدت کیا کرتے تھے ۔ یہ شعر دیکھیں جو حضرت نظام الدین اولیا کے لیے کہا گیا ہے ۔ اگر اس کا سیاق معلوم نہ ہو تو ممکن ہی نہیں کہ ہم اس کے اصل مفہوم تک پہنچ سکیں : گوری سوئے سیج پر ، مکھ پر ڈارے کیس چل خسرو گھر آپنے ، رین بھئی چَوہدیس اور خسرو کا یہ کلام دیکھیں : خسرو باجی پریم کی ، میں کھیلوں پی کے سنگ ہار گئی تو میں پیا کی ، ہاری پی کے سنگ اب دکن کی طرف چلیں اور فیض دکنی کی غزل کے یہ اشعار دیکھیں :

 کریں ہم کس کی پوجا اور چڑھائیں کس کو چندن ہم

 صنم ہم دیر ، ہم بت خانہ ، ہم بت ، ہم برہمن ہم

٭٭

 در و دیوار ہی نظروں میں اپنی آئینہ خانہ

کیا کرتی ہیں، گھر بیٹھی ہی، اپنا آپ درشن ہم

 ہوا اے فیض یہ معلوم ایک مدت میں، ہمیں تھے

 وہ جپا کرتے تھے جس کے نام کی دن رات سمرن ہم

 ولی دکنی کے یہاں اس طرح کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی جن میں انھوں نے ہندستا نی مذاہب اور رسوم و رواج سے علامتی الفاظ وضع کیے ہیں مثلاً:

کوچہٴ یار عین کاسی ہے

جوگیٴ دل وہاں کا باسی ہے

 اور یہ اشعار:

 رشتے کو بندگی کے ڈالا اپس گلے میں

 دیکھا جو تجھ صنم کے زنّار کا تماشا

 اے صنم تج جبیں اپر یوں خال

 ہندوئے ہردوار باسی ہے

 قلی قطب شاہ کی غزلیہ شاعری میں ہندستانی لفظیات و علامات کو اس خوبصورتی سے پیش کیا گیا کہ اردو غزل ہند-ایران تہذیب کا نمونہ بن گئی ہے ۔ ملاحظہ ہو:

 سب اختیار میرا، تج ہات ہے پیارا

 جس حال سوں رکھے گا ، ہے او خوشی ہمارا

 نیناں انجھوں سوں دھوں، پگ اَپ پلک سوں جھاڑوں

 جے کوئی خبر سو لےاوے، مکھ پھول کا تمہارا

 بتخانہ نےن تیرے، ہور بت نین کیاں پتلیاں

مجھ نین ہیں پجاری ، پوجا ادھاں ہمارا

 یگانہ چنگیزی نے کہا:

 کرشن کا ہوں پجاری ،علی کا بندہ ہوں

 یگانہ شانِ خدا دیکھ کر رہا نہ گیا

بقول حسرت موہانی:

 متھرا سے اہل دل کو وہ آتی ہے بوئے اُنس

 دنیائے جاں میں شور ہے جس کے دوام کا

 امیرمینائی کا شعر ہے :

 سانولی دیکھ کے صورت کسی متوالی

کی ہوں مسلمان مگر، بول اٹھوں جے کالی کی

 پنڈت برج نرائن چکبست کہتے ہیں :

 اذاں دیتے ہیں بت خانے میں جا کر شان سے مومن

 حرم میں نعرہٴ ناقوس ہم ایجاد کرتے ہیں

اور یہ شعر دیکھیں :

کسی بت کدے مےں بھی بیاں کروں

 تو صنم بھی کہے ہری ہری

 مزید مثالیں :

جودھا جگت کے کیوں نہ ڈریں تجھ سوں اے صنم

 ترکش میں تجھ نین کے ہیں ارجن کے بان آج

 ولی دکنی:

 آتشِ عشق نے راون کو جلا کر مارا

گرچہ لنکا میں تھا اس دیو کا گھر پانی میں

 غالب:

 جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا

کریدتے ہو جو اب راکھ، جستجو کیا ہے؟

سودا کاایک  شعر اور دیکھیں:

ہندو ہیں بت پرست، مسلماں خدا پرست

 پوجوں میں اُس کسی کو جو ہو آشنا پرست

 فراق گورکھپوری کے اشعار :

 ہر لیا ہے کسی نے سیتا کو

زندگی جیسے رام کا بن باس

 دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی

 کہ جگمگا اُٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ

شِیو کا وِش پان تو سُنا ہوگا

 میں بھی اے دوست پی گیا آنسو

 اقبال سہیل کے اشعار میں اس طرح کی لفظیات کو دیکھیں :

پہنچی یہاں بھی شیخ و برہمن کی کشمکش

اب میکدہ بھی سیر کے قابل نہیں رہا

 اثر لکھنوی :

مدھ کی کٹوریوں میں وہ امرت گھلا ہوا

جس کا ہے کامِ دیو بھی پیاسا، غضب غضب

 جاں نثار اختر:

 اُجڑی ہوئی ہر آس لگے

 زندگی رام کا بن باس لگے

 اب میں قصیدے کے ان اشعار کو ملاحظہ کریں جو نبی کریم ﷺ کی شان میں لکھے گئے ہیں مگر اس کی ابتدا عقیدت و محبت کی سرزمین کاشی اور متھرا سے ہوتی ہے :

 سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل

 برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا

 جل گھرمیں اشنان کریں سرو قدانِ گوکل

 جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے ایک طولِ عمل

کالے کوسوں نظر آتی ہیں گھٹائیں کالی

ہند کیا ساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل

 ڈوبنے جاتے ہیں گنگا میں بنارس والے

 نوجوانوں کا سنیچر ہے یہ بڑھوا منگل

حضور اکرم ﷺ کی شان میں نعت کہتے ہوئے اس طرح کے اشعار اہل ہند ہی کہہ سکتے ہیں۔

        اب موضوعات کی سطح پر اردو شاعری کو دیکھیں ۔اردو نے فارسی ادبی روایات اور ہندستانی رواداری کو جس طرح شیر و شکر کیا ہے اس کی مثالیں دنیا کے کسی ادب میں نہیں ملیں گی۔اردو شاعری سے ایسی مثالیں پیش کرنے سے قبل پہلے فارسی کا یہ اشاعرملاحظہ ہوں :

 در حیر تم کہ دشمنی کفر و دیں کجاست

 از یک چراغ کعبہ و بت خانہ روشن است

 اور مولانا روم کا یہ شعر :

دی شیخ با چراغ ہمی گردید گرد شہر

 از دیو ودد ملولم ، انسانم آرزو است

 اور یہ شعر :

 دل بدست آور کہ حج اکبر است

 از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر است

 حافظ شیرازی کا یہ شعر بھی دیکھیں :

حافظا گر و صل خواہی صلح کن با خاص و عام

 با مسلماں اللہ اللہ با برہمن رام رام

        اب اردو کے اشعار دیکھیں جن میں فارسی کے یہی موضوعات ہندستانی تناظر میں پیش کیے گئے ہیں :

کعبہ و دیر میں حاتم بخدا غیرِ خدا

 کوئی کافر نہ کوئی ہم نے مسلماں دیکھا               حاتم

گلہائے رنگ رنگ سے ہے رونق چمن/زینت چمن

 اے ذوق اس جہاں کوہے زیب اختلاف میں/ سے            ذوق

خدا کے عاشق توہیں ہزاروں، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کا ، خدا کے بندوں سے پیار ہوگا             اقبال

 اشتراک و اتفاق اور پُر امن بقائے باہمی کا یہ مضمون اردو شاعری میں سب سے اہم ہے ۔ اقبال کا یہ شعر دیکھیں :

یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو

 ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہو

 اور آگے ہتے ہیں :

 شراب ِروح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی

سکھایا اس نے مجھ کو ،مست بے جام و سبو رہنا

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے

کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے

        ہندستان کی شناخت ’ کثرت میں وحدت ‘ کا نظریہ ہے ۔ لیکن کبھی کبھی اسی کے سہارے اختلافات کو بھی ہوا دی گئی ہے ۔ شعرا نے اس جانب بہت ہی پُر اثر طریقے سے ان مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہوئے ہم آہنگی کا درس دیا ہے۔ میر درد کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

 بستے ہیں ترے سائے میں سب شیخ و برہمن

آباد ہے تجھ  ہی سے تو گھر دیر و حرم کا

مدرسہ یا دیر تھا یا کعبہ یا بت خانہ تھا

 ہم سبھی مہمان تھے واں،ایک تو ہی صاحب خانہ تھا

        اقبال نے ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا قرار دےا اور کہا :

 چشتی نے جس زمیں میں پیغام حق سنایا

ا نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا

        چکبست نے اپنے احساس کو یہ الفاظ بخشے :

 گوتم نے آبرو دی اس معبد کہن کو

سرمد نے اس زمیں پر صدقے کیا وطن کو

 اکبر نے جام الفت بخشا اس انجمن کو

 سینچا لہو سے اپنے رانا نے اس چمن کو

 میر تقی میر کے یہ اشعار:

 کعبہ پہنچا تو کیا ہوا اے شیخ

سعی کر ٹک پہنچ کسی دل تک

دل وہ نگر نہیں کہ بھر آباد ہوسکے

پچتاوؤگے ، سنوہو یہ بستی اجاڑ کے

غالب کہتے ہیں:

 وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے

 َمرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

اقبال:

 آ غیریت کے پردے اک بار پھر اٹھا دیں

بچھڑوں کو پھر ملا دیں نقشِ دوئی مٹا دیں

 سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی

 آ اک نیا شوالہ اس دیس میں بنا دیں

 دنیا کے تیرتھوں سے اونچا ہو اپنا تیرتھ

 دامانِ آسماں سے اس کا کلس ملا دیں

 ہر صبح اٹھ کے گائیں منتر وہ میٹھے میٹھے

سارے پجاریوں کو مئے پیت کی پلا دیں

﴿﴾﴿‘﴿﴾

Leave a Reply