تاثیر کا متن خانہ
“اتالو کالوینو” کی تحریر “Goat Days” کا طلسم کدہ”بادشاہ سنتا ہے”،”عاصم بخشی”کی زبان میں
آج شمارہ نمبر:101
مبصر : تالیف حیدر ، جے این ۔ یو
میں نشے میں ہوں:
میں کہانیوں کو تلاش کرتا ہوں ، انہیں پڑھتا ہوں ، ان میں کھو جاتا ہوں اور حسن اتفاق یہ ہے کہ پھر اس دنیا میں واپس لوٹ آتا ہوں جہاں کہانیوں کا وجود عرضی حقیقتوں کی خاک میں پیوست ، رلتا ہوا نظر آتا ہے۔ بعض قصے میری روح سے ٹکراتے ہیں۔ میں انہیں اپنی روح سے ٹکراتا ہوا قصہ کہنے پر مجبور ہوں، اس لیے کیوں کہ میرے پاس وہ زبان نہیں جس میں ان کی کسک کو بیان کر سکوں۔ ایسی کہانیاں جن میں جیون کا تازہ ، گھلاہوا اور گرم امرت پایا جاتا ہے۔ جس کے شوق سے میں زندگی کے پھیلاو سے آنکھیں ملانے کے قابل ہوتا ہوں۔ ایسی کہانیاں مجھے اپنے حصار میں رکھتی ہیں، مجھے اس بات کا احساس دلاتی ہیں کہ بے ثباتی دہر اور زندگی کی نغمگیوں اور تراوٹوں کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ ہے۔ میں ان قصوں کا ممنون ہوتا ہوں، انہیں سجدے کرتا ہوں۔ انہیں قصوں سے بڑھ کر سمجھتا ہوں ، ان کے متن کی رگوں میں داخل ہو کر اپنی لاچاریوں سے بے نیاز ہونے کا غل مچاتا ہوں ۔ زندگی کے پھیلاو کے مکمل ادراک کے نہ حاصل ہونے کا احساس مجھے ان کہانیوں میں داخل ہونے کے بعد باطل لگنے لگتا ہے۔ ایسی کہانیاں میرے لہو کی تصویر بناتی ہیں، میرا کھیل درست کرتی ہیں۔ اس وجدان کو بھلاوے میں ڈال کر جس پر میں ناز کرتا ہوں مجھے ایک بچے کی مانند لوریاں سناتی ہیں۔
یہ ساری باتیں میں یوں ہی نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ “اتالو کالوینو” کی تحریر “بادشاہ سنتا ہے” جس کا ترجمہ عاصم بخشی نے کیا ہے، اس کو پڑھ کر اپنے ان ملے جلے جذبات کا اظہار کر رہا ہوں جو مجھ میں اکثر تنہائی میں اور ایسی کہانیوں کو پڑھنے کے بعد رقص کرنے لگتے ہیں ۔ یہ کہانی ایک ادھورے یا یوں کہیے کہ زندگی کے مختلف ادھورے فریمس کو یکجا کر کے مکمل کی گئی ہے۔ ایک ایسا متن جس کی کثرت میں انتہا کی لامتناہی وحدت ہے۔ وہ ساری باتیں کہ یہ کہانی کیا ہے؟ شائد میں کسی زبان میں بیان نہ کر پاوں۔ایسی کہانیاں جن کا تجزیہ نا ممکن ہو، جن پر تنقید لا حاصل ہو اور جن کا تعارف محال ہو۔ ان پر زیادہ بات کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔مجھے اس کے پڑھ لینے کے بعد یقیناً اس بات سے بھی زیادہ سروکار نہیں رہا کہ یہ اتالو کالوینو نے لکھی ہے یا کسی اور نے ، یہ عاصم بخشی کا ہنر ترجمہ نگاری ہے یا کسی اور کا۔اس میں کتنے کردار ہیں؟ یہ کون سا بیانیہ ہے؟ اس میں کون سی تکنیک استعمال کی گئی ہے؟ کس معاشرت کی عکاسی کی گئی ہے یا کن مسائل سے اس کا علاقہ ہے؟ یہ ساری باتیں ایسی دلچسپ تحریروں کو پڑھنے کے بعد بے کار معلوم ہوتی ہیں۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ تحریر ایک ایسا “متن خانہ” ہے جہاں مجھے اپنی تاریخ اور سیاسیات کے بے شمار کالے بت نظر آئے ، جہاں میرا بچپن ہے، بادشاہوں کی بے بسی ہے، مصنفوں کے جھوٹ ہیں ، آقاوں کی غلامی ہے، معجزوں کی شعبدہ بازیاں ہیں۔ جہاں خیالات کی اور مناظر کی ایک دوڑتی ہوئی فوج ہے، جو ہمیں کسی انجان چوٹی سے کبھی دل کے نہا ں خانے میں دھکیل دیتی ہے اور کبھی بدن کی سرگوشیوں سے ایوان زیریں و بالا کی چشمکوں میں کھیچ لاتی ہے۔ مجھے اس تحریر میں بہت دبیز لہریں ملی ہیں ان سچائیوں کی جو عام زندگی کے گدلے پانی میں پیدا ہوتی ہیں ۔بے شمار الہامی ستون ملے ہیں،ایسے جن سے صدائے احتجاج بلند ہوتی ہے۔یہ تحریر کسی علاقے یا کسی شخص کی نہیں ، بلکہ ایک حصار کی ہے۔ ایسا حصار جس میں تہذیبوں کے بے شمار مسکن سما جاتے ہیں ، جس میں زمینوں کے لا تعداد ٹکڑے جذب ہو جاتے ہیں۔ حکمرانوں کی اندھی بصیرتیں اور لاچاریاں پیوست ہوتی ہیں اور چشم کشاؤں کےٹوٹے ہوئے خواب دفن ملتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ آپ کو یہ تحریر کسی مجذوب کی بڑ لگے ، مگر میرا سفر مجھے اس بڑ میں بڑا آشچریہ لگا۔ ہو سکتا ہے کوئی شخص اس کہانی کے متن سے لپٹ کر اس کی گہری حقیقتوں کو پا لے ، مگر مجھے تو اس میں ایسے ٹوٹے ہوئے تسلسل کے رنگین کنوئیں نظر آئے جن میں گر کر میں ایک تاثیر سے دوسری تاثیر میں تحلیل ہوتا چلا گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کہانی کی بے شمار کڑیاں کسی کو ایک ایک تاگھے میں پروئی ہوئی محسوس ہوں ، مگر مجھے تو اس کی غیر منتظم حالت پر رشک آیا۔ اس تحریر کو پڑھتے ہوئے مجھے کسی مقام پر اس کے متن سے اجنبیت کا احساس نہیں ہوا، ہر وہ جذبہ جو کسی جملے یا لفظ سے میرے اندر پیدا ہوا وہ مجھے اپنا ازلی حصہ معلوم ہوا۔ پھر خواہ وہ سنجابی چوغے کی شرارتوں کا بیان ہو یاموٹے کمر بند کے سنہرے قبضے کا اعجاز۔دمدموں کا سرور ہو یاتُرم کی ترشیدہ آواز۔
اس تحریر کی یہ خاصیت ہے کہ یہ میرے قدموں کو پکڑتی ہے، مجھ سے لپٹ جاتی ہے اور ان بے شمار جملوں پر مجھ سے ہم آغوش ہو جاتی ہے جن پر میرےمنہ سے ایک بے ساختہ کلمہ ادا ہوتا ہے۔مثلاً یہ سطور کہ:
- اصطبل سے کبھی کبھار آنے والی ہنہناہٹ یہ بتاتی ہے کہ کھانے کا وقت ہو گیا ہے۔
- گھبراہٹ اُس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک چاکِ سماعت سل نہ جائے۔
- قدموں کی ایک ایک آواز، کسی تالے کی ایک بھی کھنک، ہر چھینک کی آواز گونجتی اور ٹکرا کر پلٹتی ہے، اور افقی سمت ایک دوسرے سے متصل کمروں، دالانوں، ستونوں کی قطاروں، داخلہ گاہوں، اور اسی طرح عمودی سمت میں گردشی زینوں، کھلی جگہوں، روزنوں، پائپوں، چمنیوں اور سامانِ طعام کے خودکار ترسیلی راستوں میں پھیلتی چلی جاتی ہے۔
- محل بادشاہ کا بدن ہے۔ تمھارا بدن تمھیں پُراسرار پیغامات بھیجتا ہے جو تم خوف اور پریشانی سے وصول کرتے ہو۔ اسی بدن کے ایک نامعلوم حصے میں ایک عفریت گھات لگائے بیٹھا ہے۔
- کیا کوئی کہانی ایک آواز کو دوسری سے جوڑتی ہے؟ تم معنی تلاش کیے بغیر نہیں رہ سکتے، جو شاید کسی ایک آواز میں نہیں، اکیلی اکیلی آوازوں میں بھی نہیں، بلکہ ان درمیانی وقفوں میں ہیں جو انھیں الگ الگ کرتے ہیں۔
- ہر وہ قصہ جو تمھاری جانب سے ظہور میں آتا معلوم ہوتا ہے، خود تمھیں تمھارے ہی پاس واپس لے آتا ہے۔
- گلیاں کیا ہیں، گھومتی چرخیوں کے ارّے ہیں۔
- وہ بھی ایک وقت تھا جب خوش ہونے کے لیے تمھیں صرف اپنے ذہن یا لبوں سے ایک ’’ترالالالا‘‘ کرتے ہوے اس سُر کی نقالی کرنا ہوتی تھی جو کسی عام سے گیت یا پھر کسی پیچیدہ سمفونی سے تمھارے ذہن میں اٹک گئی ہوتی تھی۔ اب ’’ترالالالا‘‘ کی جتنی بھی کوشش کر لو، کوئی سُر تمھارے ذہن میں نہیں آتا۔
یہ جملے کوئی کلیہ نہیں اور نہ ہی انتخاب بس میرے سرور کا ایک حصہ ہیں اور اس تحریر میں ایسے بے شمار حصے بکھرے پڑے ہیں ۔ یہ خیال کہ اس کہانی سے کسی شخص کا رشتہ کیسا ہو سکتا ہے یہ میرے لیے معمہ ہے ، لیکن اس کے باوجود اس کاتسلسل اور گھماو ہر اس پڑھنے والے کو جوکسی مسحور کن تحریر کی تلاش میں سر گرداں ہے جو سچی کہانی کا عاشق ہے، جس میں حقیقت کو کہانی کی دنیا میں مزید حقیقت کی صورت میں دیکھنے کی جستجوہے، جو واقعات کے لطافت اور زور بیان کے بلند آہنگی کو ایک جگہ دیکھنے کا خواہش مند ہے وہ اس تحریر کے وصال پر اپنی امید کو پہنچے گا۔بشرط کہ اس تحریر کو وہ کسی شاعر کا ترنم سمجھ کر نہ پڑھے اور نہ کسی مصلح کا ہدایت نامہ۔ اس میں کسی علاقے کی معاشرت کو نہ ڈھونڈے اور نہ کسی تخلیق کار کے شاہکار کو۔ بس پڑھے ، بڑھے اور متن کے تاروں سے الجھتا چلا جائے۔
سخنور بہت اچھے:
فن ترجمہ نگاری فن سخنوری کی اولاد ہے۔ ایسی اولاد جو بعض اوقات اپنی کرشمہ سازیوں سے اپنی ماں کو شرما دیتی ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اتالو کالوینو کی لکھی ہوئی تحریر یں شاہ کا ر ہوتی ہیں ، ان کی چندتحریر یں میں آج کے گذشتہ شماروں میں بھی پڑھ چکا ہوں ۔لیکن اردو والوں کے لیے یہ تحریریں اپنی اصل صورت میں نہیں، بلکہ اردو زبان میں شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں ۔ ایسی صورت حال میں اتالو کالوینو اور مترجم کا فن ایک مقام پر آ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ عاصم بخشی نے اس تحریر کے ترجمے میں جو طرز اختیار کیا ہے اس کو پڑھنے کے بعد میرا ذہن فوری طور پر عبدالحلیم شرر کی گذشتہ لکھنو کی طرف گیا۔ یقیناً اس تحریر کا اور گذشتہ لکھنو کاایک دوسرے سے موضوع کے اعتبار سے کوئی خاص رشتہ نہیں ، لیکن ان دونوں تحریروں میں یکساں تاثیر کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ گذشتہ لکھنو کے بعد جس کتاب کی طرف ذہن جاتا ہے وہ طلسم ہوش ربا اور اقبال کی بعض نظمیں ہیں ۔ اقبال کا شاعرانہ بہاو عاصم صاحب کی نثر کی جڑوں میں اتر گیا ہے۔ یقیناً یہ میرا، اس ترجمے کا اور اقبال کی شاعری کا رشتہ بول رہا ہے۔ مثلاً بعض اقتباسات تو ایسے رواں نثر میں ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ طلوع اسلام کےبند زبان پر جاری ہو گئے ہوں ۔ اس ترجمے سے دو نسبتوں کا اور تعلق مجھے نظر آیا ایک تو راشد اور اختر الایمان کی بعض نظموں کا اورناصر نذیر فراق کی تحریروں کا۔ میں عاصم بخشی سے واقف نہیں اور نہ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ان شاعروں اور کتابوں کا مطالعہ کر کے اس تحریر کا ترجمہ کیا ہے، بس میرا اس تحریر سے جو رشتہ قائم ہوا اس میں عاصم بخشی مجھے ان ادیبوں کی طرز نگارش کی تاثیر سے وابستہ نظر آئے۔
انشائیہ نگاری کے فن سے وہ کماحقہ واقف ہیں ، یہ ہی وجہ ہے کہ بے شمار جملے جو یقیناً اصل متن میں اتنے متاثر کن نہ رہے ہوں گے جو ترجمے کی صورت میں ہو گئے ہیں یا کم سے کم درجے میں اردو والے تو ہر گز اس کے اصل متن سے واقفیت کے باوجود ویسا لطف نہ لے پائیں گے جیسا کہ ان جملوں کوعاصم بخشی کےفن ترجمہ نگاری نے بنا دیا ہے۔اردو لغت اور محاورے سے ان کی واقفیت بھی بلا کی ہے۔ کون سا لفظ کس جگہ زیادہ بااثر معلوم ہوگا یا کس محاورے کے استعمال سے پڑھنے والے کا تسلسل منقطع نہیں ہوگا اس کا انہیں بھرپور ادراک ہے۔ قدیم و جدید اصطلاحات اور جدید استعاراتی نظام سے بھی ان کی کماحقہ شناسائی ہے۔ لہذا یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ترجمے کو اصل سے دو ہاتھ آگے لے جاتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی اردو والا ان کی اس تحریر کو پڑھتے وقت بہت کم اس بات پر غور کر پائے گا کہ وہ کسی ترجمہ شدہ متن کا مطالعہ کر رہا ہے۔بعض اقبتاسات کی منظر کشی اور جذیات نگاری میں تو پڑھنے والا اس قدر کھو جاتا ہے کہ متن پڑھنے کا خیال تک ذہن سے محو ہوجاتا ہے ، بلکہ یو ں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ غیر حقیقی حالات کا چشم دید گواہ بن گیا ہے۔ پھر جہاں وہ جملوں کو ایسی وضع میں تراشتے ہیں کہ اس سے دلوں کے دہلنے کا سما بندھے اور سماعتیں فکر کے روشن دانوں سے کان لگا گر محو ہو جائیں یا انسانی تہذیب کی تازہ کاریوں کے راز کھلتے چلیں جائیں اور شاعری کو نئی زبان مل جائے تب تو پڑھنے والے پر وجد طاری ہو جاتا ہے۔ کہیں کہیں مزاح جو یقیناً اتالوکالوینو کی ذات کا نقش ہے وہ عاصم بخشی کی لفظیات میں گھل کر ایسا نمایاں ہوتا ہے کہ بانچھیں کھل جاتی ہیں اور آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں ۔ طنز کی طعن کے لیے عاصم بخشی مزاح سے بالکل مختلف زبان استعمال کرتے ہیں اور لفظوں کی انی سے مزاح کو طنز سے یکسر جدا کر دیتے ہیں۔ ترکیبیں استعمال کرتے ہیں تو انیس کی چوکڑ منڈی یاد آ جاتی ہے جہاں طرح طرح کی زمانی و مکانی حالتوں کو ترکیبوں کے قالب میں ڈھال کر مقید کر لیا گیا ہے۔ علامتوں کو نمایاں کرتے ہیں تو ابہام کا رنگ نکھرنے لگتا ہے۔ ان کے بساط لفظ پر ہر حرف اشاروں کی معنوی دنیا کو مزید معنی خیز بنانے کے استعمال میں آتا ہے ۔ خواہ پھر وہ جنوب کے قصے ہوں یا شمال کے، یہ اتالو کالوینو کا کمال کم عاصم بخشی کا زیادہ ہے کہ انہوں نے تحریر کے تانوں بانوں کو مشرقی لفظیات کے ایسے ذخائر سے مرصع کیا ہے کہ پڑھنے والا اتالو کی معنیاتی تفہیم کا بھی لطف لیتا ہے اور عاصم بخشی کی معجزاتی ترسیل کا بھی۔ میں سیکڑوں لفظوں، ترکیبوں، استعاروں ،علامتوں اور کنایوں کی مثال دے سکتاہوں جہاں جہاں عاصم کا فن ہمیں عروج پر نظر آتا ہے ، لیکن پھر بھی اس صورت حال کو واضح نہیں کر سکتا جو لطف متن کے ساتھ ابتدا سے انتہا تک بہتے چلے جانے میں آتا ہے۔ صرف اتنا اشارہ کر سکتا ہوں کہ تحریر کی مکمل زبان انتخاب کلام کا درجہ رکھتی ہے۔ تمت باالخیر۔