You are currently viewing ارشد مینا نگری کے ظریفانہ سہرے

ارشد مینا نگری کے ظریفانہ سہرے

ارشد مینا نگری کے ظریفانہ سہرے

امتیاز وحید

(شعبۂ اردو، کلکتہ یونیورسٹی)

ارشد مینا نگری ایک کثیر الابعادشخصیت کے مالک ہیں، شعر و نثر دونوں میدان کے شہسوار ہیں۔ اڑتالیس شعری مجموعے اور کم و بیش اسی کے بقدر ان کی نثری فتوحات کا باب بھی روشن ہے۔ زود گوئی کئی معنوں میں عیب ہے تاہم مینانگری صاحب کی زود نویسی اور غیر معمولی ادبی فعالیت کی بدولت بعض پامال، متروک اور حاشیائی ادب کو نئی زندگی ملی ہے اور وہ بھی کچھ اس آب وتاب سے کہ آپ انگشت بدنداں رہ جائیں اور موصوف کے حسنِ نظر اور شعری ذوقِ طلب کی داددئے بغیر نہ رہ پائیں۔ میری مراد ان کے نئے شعری مجموعے ’’سہروں کے چہرے‘‘ سے ہے۔

اردو شعر و ادب میں سہرا نگاری کی روایت موجود ہے۔ غالبؔ اور استاد ذوقؔ کی حریفانہ کشاکش کے سیاق میں اس کی ادبی معنویت کا باب خاصا روشن ہے۔ بلکہ دونوں اساتذۂ سخن کے یہاں حریفانہ چشمک میں سہرانویسی ایک اہم محرک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کے علی الرغم یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ شعرا نے سہرا نگاری کو صنفی طور پرزیادہ درخورِ اعتنا خیال نہیں کیا اور اسے وقتی مسرت اور انبساط کے لمحاتی دائرہ میں سمیٹ کردیکھا، وقتی یا ساعتی حدود سے آگے ثروت مند ادبی دھارے میں شامل نہیں کیا یا اس کے تخلیق کے سبھی مراحل میں پس و پیش کا اظہار کیا۔

غالب کے دیوان میں ان کا سہرا سب سے اخیر میں شامل کیا گیا ہے۔ ذوق کے علاوہ قدما میں، ناسخ، اکبرالہ آبادی اور بعد کے سخن وروں میں قدرے توانائی کے ساتھ جمیل مظہری اور ان کے شاگرد پروفیسر کلیم عاجز، مظہر امام، ظفرکمالی، منظر شہاب اور ان سے تھوڑا پہلے شاد عارفی، مولانا عبدالعلیم عاصی وغیرہ کے مجموعۂ کلام میں سہرے دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن شعر و سخن وری کے طویل سفر میں سہرے اگر لکھے بھی گئے تو ضروری نہیں کہ وہ شاعر کے دیوان میں بھی جگہ پائیں، فرمائش ہوئی تو کاغذ پر لکھ کر دے دیا گیا اور شاعر اسے اپنی ناخلف اولاد کی طرح فراموش کربیٹھا۔ شمولیت کی صورت میں بھی بد دلی اور بے اعتنائی دیکھی گئی ہے، سہروں کے ایک وافر سرمایے کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عام طور پر شعرا کی سہل پسندی نے انھیں ردیف’سہرا‘ سے آگے نئی زمین کی تلاش اور فرحت بخش فضا کے لیے درکار جگر کاوی کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیا۔ اس عمومی صورتِ حال اور متذکرہ بین حقائق کے برعکس صنف سہرانویسی کے باب میں ارشد مینا نگری کا دم غنیمت ہے۔ انھوں نے سہرا نگاری کو صنفی اعتبار سے شرف و مجد بخشنے اور اسے ادب کے مکھ دھارے میں شامل کرنے کی باقاعدہ منصوبہ بند کوشش کی ہے۔ بلکہ اسے دائرۂ اعتبار میں لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ جرأت قابلِ داد بھی ہے اور توجہ طلب بھی۔ اس بیانیہ کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ غالباً میری دانست میں اردو ادب میں ’سہرے کے پھول‘ از امان خاں دلؔ (شمالی امریکہ) کے بعد سہروں کا یہ دوسرا مجموعہ ہے۔ اس اعتبار سے جناب ارشد مینا نگری دوسرے ’’سہرائی‘‘ شاعر ہیں، جن کی زنبیل میں خالص سہروں پر مبنی ایک خودمکتفی مجموعۂ کلام ہے۔

سہرا ایک موضوعاتی صنف ہے۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ شاعر اسے سیال مادہ کی طرح متنوع ہئیتی سانچے میں ڈھال کر مختلف شعری اصناف میں اس کی تشکیل کر سکتا ہے۔ چنانچہ جناب ارشد مینا نگری نے اس ادبی رعایت سے خوب فائدہ اٹھایا اور اس صنف کو متعدد شعری اصناف: غزل، گیت، نظم، قطعات، ثلاثی، سانیٹ، رباعی، دوہے اورہائیکو میں برت کر اہلِ ذوق کو صنفِ سہرے کی کشادہ دامانی اور اس کے کینوس میں پوشیدہ وسیع امکان کی طرف متوجہ کیا ہے اور اسے آزمانے کی دعوت دی ہے۔ انجانے سمت میں قدم بڑھانے میں جس جرأتِ رندانہ، مشاقی اور داخلی طور پر ادبی ہمدردی مطلوب ہوتی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ؛ایسے میں مینانگری جیسا اکّا دُکّا قلندر اگر نامانوس جادہ پر چلتا ہوا دکھائی دے جاتا ہے، تو ایمان داری کا تقاضا ہے کہ اسے خوش آمدید کہا جائے۔ یہ ادب کے لیے نیک فال ہے۔ تنقید و تعریض کا مرحلہ بعد کا ہے، جس کا حق بہر کیف سبھی کو حاصل ہے۔

صنفِ سہرے پر ارشد مینا نگری کی جملہ مساعی کا اعتراف کرتے ہوئے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے ایک وقیع مضمون میں یہ بات بطورِ خاص تحریر کی ہے کہ اس صنف سے ان کا تعلق کسی ہیجانی یا غیر ارادی طورپر نہیں بلکہ منصوبہ بند اسٹرٹیجی کا نتیجہ ہے۔  انھوں نے ’سہرا‘ کو بطورِ صنف قبول کیا ہے اور اس میں فکر و احساس اور تجربے کی لطافت اور نفاست سے گل بوٹے کھلائے ہیں اور اپنی افتادِ طبع کی تپش سے اپنے سہروں میں علو خیال کی حرارت بھردی ہے۔ جدت، روایت اور نئی معنیاتی دشاؤں سے معمور جہات پرمبنی اشعار کو نشان زد کرتے ہوئے پروفیسر موصوف نے مناکحت کی پرمسرت تقریب کے تہذیبی علاقے اور دوئی کے خاتمے میں مضمر’’فطرت کی چہکار‘‘کی جانب اشارہ کیا ہے اور حاصل کلام کے طور پر’’سہرے کو تہذیب اور تہذیب کو سہرا بنانے کے ہنر‘‘ کا نکتہ بیان کیا ہے، جس حسن سے مینا نگری کے سہرے مزین ہیں۔

ارشد مینا نگری کے مجموعے میں ایک قابلِ لحاظ تعداد ان سہروں کی ہے، جن کی اساس ظرافت پر رکھی گئی ہے۔ انھیں ’سہرا ظریفانہ‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس ترکیب کے استعمال کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ بہرکیف یہ راست طور پر ’ظریفانہ سہرے‘ ہیں۔ ظرافت طبیعت کے داخلی، گداز اورلطیف احساس کی نمائندگی کرتی ہے، جو عام طور پر کلفتوں سے نجات پانے یا پر طرب انگیز لمحات کے بطن اور اس کی رعایت سے پیدا ہوتی ہے۔ خوشی کی فضا میں ظریفانہ رنگ کا در آنا فطری بات ہے اور شادیات کے حوالے سے اس کے امکانات اور دستور تو روزِ اوّل ہی سے موجود ہیں۔  ارشد مینا نگری کے ظریفانہ سہروں کے کئی جہات ہیں۔ ایک توانا پہلو تو یہی کہ ان کے یہاں ظرافت کا ایک اقداری پیمانہ ہے اور یہ ان کی تعمیری فکر سے مشروط ہے۔ مقصدیت سے عاری یا مقصدیت بے زار شاعری میں شعری محاسن کے جملہ گل بوٹے کیوں نہ جڑ دئے جائیں، اس میں ازلی حسن کی تمازت نہیں پائی جاتی۔ اس چلتے پھرتے انسان کی طرح جو بادی النظر میں ایک بھرپوروجاہت کامالک دکھتا ہے لیکن ٹٹولیے تو اس کی روح پر پراگندگی اوربوالہوسی کی دبیز کائی جمی رہتی ہے۔ خوبی کی بات ہے کہ ظریفانہ کلام میں بھی مینانگری نے شادمانی کے جذبے کو مقصد کے استحضار سے غافل نہیں ہونے دیا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

دیکھیے بزمِ شادمانی میں
ہر خوشی کا امام ہے سہرا
ناز و ادا سے لپٹ گیا ہے نوشہ پر
کتنا اچھا موقعہ تاڑا سہرے نے
بدبیں سارے نظر ہٹا کر دبک گئے
شیروں جیسا رعب دہاڑا سہرے نے
دل میں پھیلے وحشت کے سناٹے کو
اپنے ہر جلوے سے لتاڑا سہرے نے
دل تھرکنے لگے نظر ناچے
جیسے طبلے کی تھاپ ہے سہرا

ان نظمیہ اشعار کے پہلے شعر میں مینانگری صاحب نے سہرے کی مجموعی مرکزیت کے پیشِ نظر اسے خوشی و شادمانی کا’’امام‘‘ بتایا ہے اور صنفِ سہرے کے مثبت قدروں کی نشاندہی کردی ہے۔ ساتھ ہی شادیات کے موقع سے لغو اور بے ہودہ غیر انسانی اور اخلاق سے عاری رسوم و رواج کی بیخ کنی بھی کردی ہے۔ امام کے منصبی فرائض کے سیاق میں سہرے کو امامِ طرب کی حیثیت سے دیکھنا، سہرے اور خوشی میں تعمیر پسند ی، نفاست اور پاکیزگی کے اسلامی اصول و اقدار کی پاسداری کا علم بلند کرنا ہے۔ یہ جذبہ مقصدِ حیات اور فطری صالحیت سے تہی دامن ہوکر بھلا کیوں کر ممکن ہے۔ دوسرے، تیسرے اور چوتھے اشعار میں قافیہ کی رعایت سے ظرافت نے اپنا رنگ جمایا ہے۔ اس سلسلے کے پہلے شعر میں ’’تاڑا‘‘ لفظیات ایک خاص حسن سے مملو ہے اور برمحل ہے۔ بلکہ یہ شعرع

ناز و ادا سے لپٹ گیا ہے نوشہ پر
کتنا اچھا موقعہ تاڑا سہرے نے

خوب ہے۔ خوشی کی ساعتوں کی لذت اور اس کیفیت کی تعریف بھلا اس سے بہتر کیوں کر ممکن ہے۔ ناز و دا کے ساتھ بے ساختگی بھی ہے اور اس پر مستزاد’’تاڑا‘‘ کی چاشنی بھی۔

آخری شعر کی کیفیت قلب و نظر میں نشاط کی افزودگی سے تجلی پاتی ہے۔ مشبہ اور مشبہ بہ میں کیف و طرب کا ایک تلاطم ہے۔ نظر دل میں اٹھتی خوشی کی ہلچل کا آئینہ ہے۔ خوشی چمکتی نظروں میں عود کرآتی ہے اور دل کا اظہاریہ کہلاتی ہے۔ نظر رقصاں ہو اٹھتی ہے ؛طبلے بجتے ہیں تو سرور انگیز ی سے دل منور ہوجاتا ہے اور انسان کی نظریں روشن ہوجاتی ہیں۔ چلئے اس بیانیہ میں ایک شعر کا مزیداضافہ کرتے ہیں۔ شعر ہے ع

رخ پہ آنسو بھی اور تبسم بھی
رنج و غم کا ملاپ ہے سہرا

شادیات کے ضمن میں آنسو اور تبسم کی متضاد کیفیت کی اس سے بہتر تعبیر کیا ہوسکتی ہے۔ خوشی متبسم ہوتی ہے لیکن اس کا دامن رنج کے کانٹوں میں الجھا ہوتا ہے۔ شاعر نے کمال خوبی سے اس کی جو تصویر اتاری ہے وہ ’’ طرب انگیز غم‘‘ سے لکھی گئی ہے۔

ایک خاص بات اور ہے، جس کی نشاندی ارشد مینا نگری کے سہروں کے ضمن میں کیا جانا چاہئے۔ اس کا تعلق ان کی شعری سہل نگاری سے ہے۔ مینانگری نے غالباً جذبے اور احساس کی ترسیل میں عام فہم لفظوں اور کنایوں کو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کے یہ سہرے سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہیں۔

دو دلوں کی چھپی محبت میں
کھلاّ اعلان بن گیا سہرا
آنکھیں مل مل کے دیکھتے ین رقیب
ان کو مرچی کی بھاپ ہے سہرا
آرزوؤں کا منہ بنانے کو
لونگی مرچی کی بھیل ہے سہرا
دیپ نینوں کے ہوگئے روشن
کیا مسرت کا تیل ہے سہرا
ماہ وشوں کے روشن چہرے ماند پڑے
کچھ ایسے انوار دکھائے سہرے نے

کھلاّ اعلان، لونگی مرچی خالص عوامی لب و لہجہ ہے۔ اس طرح کے سہل اور سبک لفظیات سے مینا نگری کے سہرے نمو پذیر ہوئے ہیں۔

نظمیہ’ ظریفانہ سہروں‘ میں مینا نگری صاحب شادی کے موقع سے ہونے والی ہر چھوٹی بڑی ریت اور روایت کو نظم کرنے میں کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے یہاں ظرافت کے روشن دان سے بھی تپشِ طرب کے جھونکے لانے کی جدوجہد دیکھی جاسکتی ہے تاہم انھیں اپنے’ ظریفانہ زمرے ‘ کے سہروں میں کوئی قابلِ ذکر کامیابی ہاتھ نہیں آئی ہے اور نہ ہی ان کا ظریفانہ رنگ ہی جم سکا ہے۔ یہاں غالباً ظرافت مانع رہی ہے۔  ظرافت کے اپنے تقاضے ہیں۔  ظرافت کی افزودگی کے لیے کوئی ضروری نہیں کہ لفظیات ہی فکاہیہ ہوں، ممکن ہے کہ ظریفانہ کیفیت کو ظریف الفاظ بھی کماحقہ درست طور پر واضح نہیں کرپائیں۔ ایسے میں فنکار کو بڑے محتاط اور ہوشیار رہنے کی ضرورت پڑتی ہے اور اس وقت اور جب اس میدان میں اکبر الہ آبادی جیسے کوہِ ہمالہ پہلے سے موجود ہوں۔  ارشد مینا نگری نے جن اشعار میں ظریفانہ رنگ بھرنے کی کوشش کی ہے، ان کا کچھ نمونہ دیکھیں:

پھول ہر طرح کے سجے اس میں
کیا گلوں کی دکان ہے سہرا
خوف کھاتا نہیں ذراسا بھی
جیسے اصلی پٹھان ہے سہرا
کردیا ختم انتظار کا درد
پر اثر جھنڈو بام ہے سہرا
جل ککڑوں کو خوب پچھاڑا سہرنے نے
پیٹھ میں ان کی جھنڈا گاڑا سہرے نے
۔۔۔

نوشاہ کا مطلوبہ رشتہ پٹادیا ہے
نوشاہ کی قسمت کا کچرا ہٹا دیا ہے
نوشاہ کی خدمت میں جاروب بنا سہرا
کیا خوب بنا سہرا کیا خوب بنا سہرا

۔۔۔
جانے کیا بات ہے دھتورے بھی
چاہتے ہیں گلاب سہرے کا
۔۔۔

اس طرح خوش ہوا ہر اک بچہ
جیسے خوشیوں کا باپ ہے سہرا
ہر نظر چوکنے لگی اس کو
کیا کوئی لالی پاپ ہے سہرا

۔۔۔
گرمی سے پسینے کی بوندیں جب جلد پہ چُر چُر کرتی ہے
کلیوں، پھولوں کی لڑیوں سے نوشہ کو کھجاتا ہے سہرا

۔۔۔
چاہتوں کا دلال ہے سہرا
دو دلوں کا وصال ہے سہرا
دولہا، دلہن کو پھانس لیتا ہے
کیا محبت کا جال ہے سہرا؟
کیوں اسے چاٹنے لگیں نظریں
نہ تو مرغا نہ دال ہے سہرا

ان اشعار میں واضح طور پر لفظیات کے سہارے ظرافت کو ابھارنے کی تگ و دو شامل ہے۔ ظرافت کی تخلیق میں یہ محض ایک ادبی حربہ یا مرحلہ ہے ؛ذہن و فکر کو ٹٹولنا اور انھیں گدگدانا دوسرا پڑاؤہے، جو مفقود ہے۔ ظرافت میں رفعت کے یہ دو بڑے سرچشمے ہیں۔ لفظی بازیگری کوابتسامِ فکرسے مربوط نہ رکھا جائے تو یہ لفظی شعبدہ بازی کے آگے کی چیز نہیں کہی جا سکتی۔ یہی نہیں بلکہ بعض اوقات اس سے طبیعت بھی بوجھل ہوتی ہے۔  ظرافت کی تخلیق کے لیے بھلا سہروں کو’’لالی پاپ، چاہتوں کا دلال، دولہا، دلہن کو پھانس لینے والا، جل ککڑوں کو پچھاڑنے والا، اصلی پٹھان، جھنڈو بام‘‘ وغیرہ جیسے لفظیات سے کیوں کر نشان زد کیا جاسکتا ہے۔

آخر ان لفظیاتی رکھ رکھا کا تہذیبی سیاق کیا بنے گا اور یہ کس طرح مستحسن قراردیا جاسکتا ہے؟۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے امتزاج سے جوفضاتیار ہوئی ہے وہ بہت ارفع نہیں کہی جاسکتی البتہ ظریفانہ زمرے کے سہروں میں مینا نگری نے ہشاش بشاش فضا آفرینی کی اپنی سی سعی کی ہے۔ ایک کہنہ مشق سخن ور کی طرح ارشد مینا نگری اس کلّیہ سے واقف ہیں کہ ظرافت کیوں کر غایت سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ توقع ہے کہ مینا نگری کی جملہ ادبی مساعی میں ان کی ’سہرائی‘ کاوش اور ہیئتی تجربات کو بامعنی اور امکان انگیز خیال کیا جائے گا۔ اس میں صنف سہرا پر نئی عمارت کی تعمیر کا امکان بھی موجود ہے۔

Leave a Reply