You are currently viewing نوطرز مرصع:ایک اجمالی تعارف

نوطرز مرصع:ایک اجمالی تعارف

نوطرز مرصع:ایک اجمالی تعارف

غلام علی اخضر

 

’’نوطرز مرصع ‘‘اولین اردوداستانوں میں سے ایک ہے۔ایک زمانے تک اسے شمالی ہندکی پہلی اردو داستان سمجھا جاتا رہا، لیکن بعد میں اولیت کا سہرا کربل کتھا کے سر بند ھ گیا۔اسے میر محمد حسین عطا خان نے اٹھارہویں صدی کے او آخر میں فارسی زبان کے قصۂ چہار دریش سے اردو زبان میں منتقل کیا ۔تحسین نے داستان کو سادہ سلیس زبان نہ دے کر رنگین اور مقفیٰ اسلوب میں بیان کیاجو اس زمانے کا پسندیدہ اسلوب تھا۔ اس اسلوب نے داستان کی زبان کو عربی فارسی تراکیب سے گنجور کردیا۔ یہی نہیں بلکہ تحسین نے اس میں نثر کے ساتھ ساتھ شعر کا بھی استعمال کیا۔ اس طرز اسلوب نے اس داستان کو ایک پرکشش اور گراں قدر فن پارہ بنا دیا۔
مصنف نے اپنی شاعری کے ساتھ ساتھ دوسرے شعرا کے بھی اشعار کو جابجا نقل کیا ہے اور بعض جگہوں میں شعر میں کچھ تحریف سے بھی کام لیا ہے۔
میر محمد حسین عطا خاں کا تخلص تحسینؔ ہے اور خطاب ’’مرصع رقم خاں‘‘ہے۔ وہ ضلع اٹاوہ کے ایک بااخلاق گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ والد محترم محمد باقر شوق فارسی کے صاحب دیوان شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوش نویسی میں بے مثال اور نستعلیق آمیزشکستہ کے موجد تھے۔ تحسین کے اجداد بابر بادشاہ کے دور میں’’ گردیز‘‘ (افغانستان) سے ہندوستان آئے اور’’ کڑہ مانک پور ‘‘میں مقیم ہوئے۔ پھرتحسین کے والد وہاں سے دہلی آگئے اور’’ اورنگ زیب ‘‘نے انھیں سہ ہزاری منصب و جاگیر سے نوازا۔تحسین ایک اچھے نثر نگار ہونے کے ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے، ان کی شاعری زبان کے اعتبار سے نثر سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتی ہے۔
نوطرز مرصع کی وجہ تصنیف:’’نوطرزمرصع‘‘میں قلم بند کی گی داستان چار درویش کی کہانی ہے۔ اس داستان کو تحسین نے ایک سفر کے دوران اپنے کسی ہم سفر کی زبان سے سنا تھا۔ قصہ سننے کے بعد تحسین کے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ اسے کیوں نہ اپنی زبان میں لکھاجائے۔ اسی خیال کے پیش نظر یہ معرکۃ الآراء، اردو کی یہ داستا ن وجو میںآئی ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:
’’نو طرز مرصع‘‘ لکھنے کا خیال ، جس کا اصل نام ’’انشائے نوطرز مرصع‘‘ ہے ، تحسین کو اس وقت آیا جب وہ جزل اسمتھ کے ساتھ کشتی کے ذریعے کلکتہ جارہے تھے۔ تحسین نے اپنے دیباچے میں خود لکھا ہے کہ سفر طویل تھا۔اس لیے ایک ‘عزیز سراپا تمیز’ حکایات عجیب و غریب سے دل بہلاتے تھے۔ ایک دن اس عزیز نے دوران سفر’’قصہ چہارد رویش‘‘ بھی تحسین کو سنایا اور اسے سن کر ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ‘مضمون اس داستان بہارستان کے تئیں بھی بیچ عبارت رنگین زبان ہندی کے لکھا چاہیے کیوں آگے سلف میں کوئی شخص موجد اس ایجاد تازہ کا نہیں ہوا ،اور یہ کہ جو کوئی حوصلہ سیکھنے زبان اور اردوئے معلیٰ کا رکھتا ہو، مطالعہ اس گلدستہ بہاریں کے سے ہوش و شعور فحوائے کلام کا حاصل کرلے‘‘۔
سن تصنیف: مصنف نے 1768ء میں ہی نورطرز مرصع کوتحریر کرناشروع کر دیاتھا مگر1769میں جزل اسمتھ کے ہندوستان چھوڑ دینے کے سبب یہ کام رک گیا۔ اس کے بعد کچھ حصہ عظیم آباد کی ملازمت کے دران لکھا۔ پھر جب فیض آباد آئے تو نواب شجاع الدولہ کے حکم سے اس کام کو انجام تک پہنچا یا۔ لیکن اپنی اس کاوش کو وہ شجاع الدولہ کی خدمت میں پیش کرتے، اس سے پہلے نواب صاحب کا انتقال (1775)ہوگیا۔ اب تحسین نے اس میں ایک قصیدہ شامل کرکے نواب آصف الدولہ کی خدمت میں پیش کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ داستان 1775ء میں مکمل ہوئی۔
وجہ تسمیہ:اس داستان کا نام ’’نوطرز مرصع‘‘ رکھنے کی دو وجہ ہوسکتی ہے۔اول وجہ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے اپنے خطاب کی مناسبت سے رکھاہو۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ مرصع تحریر رقم کرنے کا نیا طرز اپنانا مقصود ہو، جس پر خود مصنف کو دعویٰ بھی تھا کہ سلف میں کوئی شخص اس ایجادتازہ کا نہ ہوا۔
قصے کا ماخد:جیساکہ اوپر مذکور ہوا، تحسین نے یہ کہانی ایک ہم سفر کی زبانی سنی تھی جسے بعد میں اپنی زبان میں پیش کیا، اس کہانی کو نوطرز مرصع کی تصنیف سے پہلے فارسی میں دو مؤلفین نے لکھا۔ پہلے مولف کا نام حکیم محمد علی المخاطب بہ معصوم علی ہے جن کی تالیف کو بہت زیادہ شہرت نہیں ملی ، دوسرے میراحمد خلف شاہ محمد ہیں۔ ان کی تالیف کو بہت شہرت ملی۔ کچھ محققین نے اس چہار درویش کے قصے کی تصنیف کو حضرت امیر خسرو کی طرف منسوب کیا ہے ، جو صحیح نہیں ہے کیوں کہ اس بات کی دلیل کہیں سے نہیں ملتی۔
داستان:’’نوطرز مرصع ‘‘کی داستان روم کے فرخندہ سیر نام کے ایک بادشاہ سے شروع ہوتی ہے،جس کی حکمرانی میں ہرطرف خوش حالی اور امن امان ہے مگر بادشاہ لاولد ہے۔ عمر کی زیادتی سے نا امید ہو کر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ آخر جب میرا کوئی وارث نہیں ہے تو ایسی حکومت کرنے سے کیا فائدہ ، اس فیصلے سے امراء و رعایا سب پریشان ہوگئے اور بادشاہ سلامت سے کہاکہ اس طرح ملک کا نظام برباد ہوجائے گا۔ خدانے توآپ کو اسی لیے بھیجا ہے۔ آپ ایسا کیجیے کہ دن کو امور سلطنت سنبھالیے اور رات کو بزرگان دین کی زیارت کیجیے۔ بادشاہ اس بات پر راضی ہوگیا۔ ایک رات محل سے نکل کر باہر آیا تو دیکھتا ہے کہ تیز آندھی میں ایک چراغ جل رہا ہے۔ بادشاہ حیران ہوا اور جب چل کر وہاں دیکھا تو چار درویش بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ بادشاہ تمام درویشوں کی باتوں کو سنتا رہا آخر میں تیسرے دویش کی کہانی ختم ہوتے ہی فجر کی آذان ہوگئی ، وہاں سے بادشاہ محل میں آیا اور ملازموں سے کہا کہ فلاں جگہ چار دریش ہیں انھیں عزت کے ساتھ دربار میں حاضر کرو۔وہ درویش حاضر ہوئے اور پھر بادشاہ نے چوتھے درویش کی کہانی سننا چاہی مگر اس سے پہلے خودایک کہانی(خواجہ سگ پرست کی) سنائی۔ اس کے بعد چوتھے نے سنانا شروع کیا۔ کہانی ختم ہوتے ہیں بچے کی پیدائش کی خبرآئی۔داستان میں کہانی بادشاہ سے شروع ہو کر ختم بھی بادشاہ ہی پر ہوئی ہے یعنی قصہ میں وحدت قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں داستان نگار کامیاب بھی ہیں۔
اسلوب:
یہ داستان کئی وجوہ سے اردو کی ایک اہم داستان ہے۔ اس کی اہمیت کی ایک وجہ اس کا اسلوب بیان ہے جس پر گفتگو کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اس سے پہلے خود اسلوب کو سمجھنا زیادہ مناسب ہے۔
اسلوب کے بارے میں کچھ فیصلہ کن نظریہ پیش نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسلوب ہے کیا؟ بس آسان لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ: ’’اسلوب افکار و خیالات کے اظہار و ابلاغ کا ایسا ڈھنگ ہے جو دل نشیں بھی ہو اور منفرد بھی ہو ‘‘یا یوں کہیں کہ :’’اسلوب لسانی خصوصیات میں انفرادیت بخشنے کا ذریعہ ہے جس سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ فلاں مصنف کی تصنیف یا تخلیق ہے‘‘اس لیے کہ زبان کی بنیادی شکل اگرچہ ایک جیسی ہوتی ہے،مگر اس کے استعمال کرنے کا طرز ہر ادیب کے یہاں جدا گانہ ہوتا ہے۔جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔اسلوب میں الفاظ کی ترتیب اور اس کے انتخاب کا سلیقہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ اچھے خیال کو کسی دوسرے کے ذہن میں منتقل کرنے کے لیے اچھے الفاظ بھی ضروری ہیں۔ اسلوب فن پارے کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے ہم اس کا اندازہ فلابیرکے اس نظریے سے کرسکتے ہیں:’’طرزاسلوب خیال کا لباس ہی نہیں ، اس کی کھال ہے ‘‘ اور الگزنڈر اسمتھ نے یہ کہا کہ:’’خیال سے زیادہ پائیدار اورلازوال شے، ادب میں اسلوب ہے۔
تحسین نے ایسے ماحول میں اس داستان کو لکھا ، جب سلیس اور سادہ تحریر کی کوئی اہمیت نہ تھی اور اہل زبان اسی تحریر کو زیادہ پسند کرتے تھے جس میں عبارت رنگین ، مرصع اور مقفیٰ ہو۔ اس رجحان نے تحسینؔ کی تحریر میں عربی الفاظ ،فارسی تراکیب اور ان زبانوں کے مزاج کے ساتھ ساتھ ان کی روایت کی گہری چھاپ چھوڑی۔اس کی ایک مثال درج ذیل ہے:
’’جب طائر زرین بال آفتاب کے نے رخ بیچ آشیانۂ مغرب کے کیا اور بیضۂ سیمین ماہتاب کا بطن مرغ مشکین شب تار کے سے نمودار ہوا مستحفطان و محارسان شہر کے نے کہ بموجب حکم والی اس دیار کے مامور تھے، دروازہ شہر پناہ کا مسدود کرکے راہ آمدو رفت صادر و وارد کی بندکی۔ ہرچند کہ عاجز نے ساتھ کمال لجاجت و سماجت کے زبان عجز و نیاز کی واسطے در آمد ہونے شہر کے کھول اصلاعرض میری کے تئیں پیرایہ اجابت کا نہ بخشا۔ لاچار بیچ پناہ دیوار کے استقامت کرکے مزاج کے تئیں واسطے شغل بیداری و شب گزاری کے اوپر تماشا برجِ حصار کے کہ رفعت عمارت اس کی ہمسر چرخ بریں کی تھی ، مصروف کیا۔ جس وقت زلف خاتونِ شب کی کمر تک پہنچی اور چشم خلائق کی خمارنشہ غنودگی کے سے سرمست خوابِ غفلت کے ہوئی ، یکایک صندوقِ چوبین فرازِ دیوار حصار کے سے مانند خورشید کے برج حمل کے سے جلا بخش دیدۂ تماشابیں ہوا‘‘۔
تحسین نے داستان کے طرز نگارش میں خوب تشبیہات اور استعارات سے کام لیا ہے ، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھیں بیان پر کس قدرقدرت و مہارت حاصل تھی۔ اس کی وجہ سے تحسین ایک کامیاب اور اعلیٰ داستان گو نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں ہر منظر کی عکاسی کے لیے الگ الگ لفظوں کا انتخاب ہوتا ہے، جس سے اندازِ پیش کش میں چار چاندلگ جاتے ہیں۔ دیکھیے صبح کی آمد پر اندازِ بیاں :
’’الٰہی کب مرغ صبح خیز شمس کا بیچ قفس مشرق کے منقار شعاع کے سے صدا روشنی کی بلند کرے گا اور کب عابد شب زندہ دار ماہ کا تسبیح ستاروں کے تئیں بیچ سجادۂ سپہرکے رکھ کے متوجہ آرام گاہ مغرب کے ہوگا کہ میں داخل شہر کے ہوکر تدبیر معالجہ کی کروں۔ اس عرصہ میں شاہ زرین کاہ خورشید کا اوپر تخت زمردّین افلاک کے جلوہ آرا ہوکے تجلی بخش ساحت سر زمین دمشق کا ہوا‘‘
’’جس وقت مغبچہ مخمور خورشید کا خم خانۂ مشرق کے سے گلابی صبح کی ہاتھ میں لے کر واسطے شکست خمار کے طرف ساغر گل کے کہ شراب صبوحی شبنم کی سے پرتھا متوجہ ہو‘‘
شام کی منظر کشی داستان گو کی زبان سے کس طرہوتی ہے اس کو بھی ملاحظہ فرمائیں:
’’عروس شفق کی نے کاکل مشکیں شام کی اوپر چہرے کے کھینچی ‘‘
’’جس وقت زاہد سومعہ دار روزکا، قرص آفتاب کے تئیں بیچ حلق شفق کے فرد لے گیا‘‘
مصنف کو عربی و فارسی زبانوں پر دسترس حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ انھیں ہندی زبان پر بھی کمال حاصل تھا۔ اس کا اندازہ ذیل کی مثالوں سے ہم بخوبی کرسکتے ہیں:
* مجھے تو ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ ایک کاونت اس بدھاوا گانے آیاتھا۔
* اس ہرن نے جو من ہرا میرا
دل کے رَمنے کا یہ شکاری ہے
* رو رو پتیاں میں لکھی، جی کاگدلپٹائے
ہے کاسدایسا کوئی پیتم کولے جائے
مصنف نے طررنگارش میں جمع الجمع سے بھی خوب موتی پیروئے ہیں :
’’توجہات بے غایات، برآرندۂ حاجات بستہ کاراں، بخشندۂ مرادات امیدواراں، امورات، مستحقطان، محارسان، نظارات، اکابران، کارپردازان، غلاماں غلمان، سجدات، نہایات، رنجوران، بیماران، عذاران جیسے الفاظ شامل ہیں‘‘
’’نوطرزمرصع‘‘ کا اسلوب ہمیں اگرچہ پر تصنع اور پر تکلف معلوم ہوتاہے مگر یہ اندازان کی مجبوری تھی ، کیوں کہ وہ اہل زبان کے نزدیک ایک ایسا اولین اسلوب رکھنا چارہے تھے جو آئند ہ نثر نگاروں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو۔
نوطرزمرصع کے اسلوب میں اول تاآخر یکسانیت نہیں، کیوں کہ جو ابتدا میں عبارت کی رنگینی نظر آتی ہے آخر میں جاتے جاتے پھیکی پڑنے لگتی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ مصنف زبانوں کی بناوٹ سے اکتاگئے ہوں۔ اس سچ کوذیل کے اقباس سے سمجھ سکتے ہیں:
’’ ایک روز اتفاقاً موسم بہار میں کہ مکان بھی دلچسپ تھااور ابر بھی زور طرح سے ہورہاتھا اور بجلی بھی یوں کو ندر ہی تھی جس طرح بینجنی پوشاک پر کناری چمکتی ہے اور ہوا بھی خوب ہی موافق پڑی تھی اور چھوٹی چھوٹی بوندیوں کے ترشّج نے عجب مزا کر رکھا تھااور ستھری ستھری گلابیاں شرابِ ارغوانی سے بھری ہوئیں اس ڈول سے رکھیاں تھیں کہ یاقت کا جگر اس کی جھلک کی حسرت سے خون ہوجاوے۔ چاہتی ہوں کہ ایک جام اس بادۂ مرووق سے نوش کروں ‘‘
اس داستان میں ہمیں اس عہد کے محلات کی آرائش، مغلوں کا شوق، اور باغات میں آرائش و زیبائش کے سامان بھی ملتے ہیں۔ ذیل میں تحسین کی زبانی اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’ترشخ سے تقاطر کے باغ کے درختوں پر یہ عالم ہورہاتھا کہ گویا چتر زمردّیں پر موتیوں کی جھالر جھلکی ہے اور سرخی گل ہائے شقائق و ریاحین کی شام کے وقت بدلی میں لطف دیتی تھی کہ جیسے رنگریز قدرت ابر کے وصلچے شفق میں پھیلا رکھتا ہے۔ بوٹا کاری ورنگ طرازی ، نقش و نگار بنگلوں کی نے نگار خانہ ارزنگ کے تئیں پرے کررکھا تھا اور شفّافی آب زلال حوضوں کی نے صفائے تختہ آئینہ حلبی کے تئیں بے آب کریا‘‘
مصنف نے جب اپنے داستان میں دعوت کا ذکر کیا ہے تو اس زمانے کے تمام رائج شدہ کھانے کا ذکر مرصع انداز میں کردیا ؛ جس سے ہمیں اہتمامِ طعام کے ساتھ شاہی دسترخوان کا بھی علم ہوتاہے :
اس عزیز نے کمال تکلف سے سامان ضیافت کا مہیا کر کے سفرہ دعوت کا آراستہ کیا اور انواع طعام ہائے لذیذ و خوشگوار و اقسام شیرینی ہائے حلاوت بخش و چاشنی دارد اصفاف شربت ہائے گلاب و بید مشک و گونا گوں میوہ ہائے تروخشک و غیرہ و لوازمہ اکل و شرب از قسم نان یزدی و نان ورقی ونان تنکی ونان پنیری ونان خمیری ونان باقرخانی وگاؤ زبان وگاؤدیدہ آبی وروغنی و خطائی و شیرمال ونان گلدار، قلیہ دو پیازہ ، نرگسی و شیرازی و زعفرانی و بادامی ، کباب ، قلیہ، کوفتہ، خاگینہ ، ملغوبہ ، پن بھتہ، بورانی، بریانی ، نورمحلی و خراسانی ، رومی، تبریزی، و شب دیگ، دم پخت، خشکہ و مزعفرو شولاومتنجن پلاؤو قورمہ پلاؤویخنی پلاؤوحبشی پلاؤوبیگمی، چاشنی، عنبری، کاشاشنی وماہی کباب و مرغ کباب و سیخ کباب وبیضہ کباب وحلیم و حریسہ و سموسہ و قبولی وطاہری و کھچڑی و فرنی وملائی و حلوا وفالودہ ونمش، قندی بامشک نافہ و ساقِ عروس و لوزیات، اچار، مربے ، ناشپاتی ، بہی، انگور، انجیر سیب ، انار، کشمش، بادام ، چھوہارے ، پستے وغیرہ‘‘
شاید مصنف نے کچھ زیادہ ہی غلوسے کام لیاہے۔ ان سے جتنے بھی نام صفحۂ قرطاس ہوسکتے تھے، قلم زد کردیئے۔یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ذکرشدہ تمام کھانے رائج وقت تھے یا نہیں۔ہاں! اتنا ضرور ہے کہ کھانے سے نوابوں کی دل چسپی کاپتا چلتا ہے۔
بہر حال، یہ بات تو طے ہے کہ تحسین نے اپنی اس داستان کے ذریعے شمالی ہند میں اردو کو ایک منفرد اسلوب عطا کیا اور بعد کے قلم کاروں کے لیے ایک سمت متعین کی، تحسین کا یہ کار نامہ اردو ادب کا ایک لازوال کا ر نامہ ہے۔ یہ اپنی کہانی،طرز بیان اور اسلوب کے لیے ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔
ایم۔اے اردو، دہلی یونی ورسٹی
7275989646

Leave a Reply