پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
موریشس میں اردو تدریس کے بنیاد گزار : عنایت حسین عیدن
جزیرہٴ ہند میں واقع موریشس ایک چھوٹا ملک ہے جس کی آب وہوا ، پُر فضا وادیوں اوردلکش مناظر کے سبب جنت نشان ملک بھی کہا جاتا ہے ۔ اس ملک کو چھوٹا ہندستان بھی کہتے ہیں کیونکہ یہاں کی آباد ی کے بڑے حصے کا تعلق ہندستان سے ہے ۔یہ ایک طویل تاریخ ہے کہ کس طرح ہندستان سے لوگ وہاں جا کر آباد ہوئے ، یہ کسی اور موقعے سے بیان کیا جائے گا ۔ یہاں صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ موریشس میں آباد تمام مسلمان ااردو کواپنی دوسری زبان سمجھ کر پڑھتے ہیں ۔ اس لیے موریشس میں اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد ہے ۔ اردو کے علاوہ ہندی ، تمل اور ملیالم بولنے والوں کی بھی اچھی تعدادہے ۔ زبان و ادب کے لحاظ سے موریشس میں ہندستانی تہذیب و ثقافت بڑے آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔ جہاں تک اردو تدریس کی بات ہے تو موریشس میں یہ سلسلہ بہت پرانا نہیں ہے ۔ موریشس کے چند نوجوان جو اردو تعلیم کے حصول کے لیے ہندستان آئے انھوں نے ہی موریشس میں اردو تدریس کی بنیاد ڈالی۔ ان شخصیات میں سب سے اہم نام عنایت حسین عیدن کا ہے ۔ان کی پیدائش۱۹۴۳ میں تریولے، موریشس میں ہوئی۔ان کی والدہ نے مسجد کے مدرسے میں تعلیم حاصل کی صرف اردو زبان میں مذہبی کتابیں پڑھائی گئی تھیں اور قرآن شریف بھی پڑھنا سکھایا گیا تھا۔والد صاحب نے صرف قرآن پڑھنا سیکھا تھا مگر ان کو مذہب کے بارے میں سیکھنے کی بہت دلچسپی تھی اور شوق بھی تھا۔پڑھے لکھے لوگوں کی صحبت میں رہ کرانھوں نے بہت کچھ سیکھا اور اپنے تمام بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دینے کا انتظام کرنا اپنا نصب العین بنا لیا تھا۔ان کی دور بینی کے سبب ہے عیدن صاحب تعلیم کے لیے علی گڑھ آسکے۔
۱۹۶۵کے جولائی کے مہینے میں بحری جہاز سے براہ بمبئی علیگڑھ پہنچے جہاں انھیں بی،اے میں داخلہ ملا۔ انگریزی ادب، اسلامک اسٹڈیز اور اردو اختیاری مضامین کے طور پر لیا۔ اس وقت وہ اردو ٹھیک سے بول نہیں پاتے تھے لیکن اساتذہ کی رہنمائی نے انھیں بہت جلد اردو بولنا پڑھنا سیکھایا ۔ عنایت حسین عیدن نے مجھے ایک گفتگو میں بتایا کہ ’’ ۔میں نے اردو کا انتخاب کیوں کیا؟اردو سیکھنا میرےلئے ایک جنون بن گیا تھا۔جب میں ہندوستانی گانے سنتا تھا تو میں بہت کم سجھ پاتا تھا۔ اس کی دُھن سے محظوظ تو ہو سکتا تھا مگر گانے کے الفاظ کے مطلب نہ سمجھنے سے ایک محرومی ہوتی تھی۔ ہماری مسجد میں جمعے کے خطبے کا ترجمہ امام صاحب اردو میں پڑھتے تھے جو پوری طرح سے سمجھنا میرے لئے دشوار تھا۔ہمارے یہاں گھر پر بہت سی مذہبی کتابیں تھیں جو والدہ پڑھتی رہتی تھیں۔میں نے ایک دو بار پڑھنے کی کوشش کی مگر میرے لئے پڑھنا بہت مشکل تھا۔ ایک بار موریشس انسٹی ٹیوٹ کی لائبریری میں جہاں میں اکثر پڑھنے جاتا تھا مجھے انگریزی میں ریفرنس کی ایک کتاب ملی جس کا عنوان تھا : ـ’’ ہسٹری آف اردو لیٹریچر‘‘ جس کے مصنف رام بابو سکسینہ تھے۔کتاب پوری تو نہیں پڑھ پائی مگر اردو زبان کی تاریخ کے بارے چند معلومات حاصل کیں۔ اسی زمانے میں اقبال کی شاعری کے ترجمے پڑھنے کا موقع ملا۔پھر میں نے سوچا کہ اگر فرنچ ترجمہ اتنا پُراثر ہے تو اردو میں اس کی شاعرانہ خوبیاں کتنی ہوں گی۔ اسی شوق نے مجھے اردو کی جانب راغب کیا ۔‘‘ اس شوق نے انھیں موریشس سے ہندستان کے سفر پر مائل کیا اس زمانے میں موریشس سے بحری جہاز کے ذریعے سفر کرنا پڑتا تھا اور یہ سفر بہت دشوار گزار ہوتا تھاہفتوں، مہینوں بحری راستوں سے گزر کر خشکی میں قدم پڑتے تھے ۔ انھوں نے بھی بحری جہاز سے ایک سینیگل کے راستے ممبئی اور پھر علی گڑھ کا سفر مہینوں میں طے کیا۔ اس وقت موبائل کیا لینڈ لائن فون بھی کم ہی تھے اس لیے خط کے ذریعے ہی رابطے کی ایک صورت تھی لہذا ان کے سفر کی خیریت ان کےگھروالوں کو بھی کئی مہینوں بع دہی ملی ہوگی۔ اس صورت حال وک دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ ان کے والدین نے کس طرح دل پر پتھر رکھ کر ان کو تعلیم کے لیے بھیجا ہوگا۔ بہر کیف ان مشکلوں سے عنایت حسین عیدن علی گڑھ آئے اور اپنی محنت ومشقت سے اپنی تعلیم مکمل کی اور اعلیٰ نمبرات سے پاس ہوئے ۔
1970 میں فرسٹ ڈیوژن سے ایم اے مکمل کرنے کے بعد وہ موریشس واپس گئے ۔علی گڑھ میگزین کے وہ ایڈیٹر بھی رہے اور بہت اعلیٰ معیار کا رسالہ بھی نکالا۔موریشس واپسی پر انھوں نے وہاں اردو لائبریری اور اردو انسٹی ٹیوٹ قائم کیا جس کے وہ جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے ۔لائبریری میں وہ ہر سنیچر او ر اتوار کو شائقین کو مفت اردو تعلیم دیتے تھے ۔مجھ سے ذاتی گفتگو میں انھوں نے اپنی سر گرمیوں کا ذکر اس طرح کیا’’ ۔ ’’ہر سنیچر کو میں نے جامعہ اردو کے امتحانات کے لئے کلاس لیتا تھا۔اس کے علاوہ تقریباََ تک اساتذہ کے لئے اردو تاریخ،تنقید اور مختلف انصاف پر تفصیلی لکچر دئے تاکہ وہ اردو ادب کو اچھی طرح سے سجھ سکیں اوراپنے طالبعلموں کو اچھی طرح سے پڑھا سکیں۔انہیں لوگوں کے تعاون ادبی جلسہ منعقدکئے۔انہیں ادبی جلسوں کی بدولت طالبعلموں اور عوام میں اردو پڑھنے کی دلچسپی بڑھنے لگی۔ اردو کو ایک زندہ زبان کی حیثیت سے رائج کرنے کے لئے مختلف اردو کی سرگرمیوں کو موریشس میں رائج کرنا پڑا۔یہاں کے لوگ بیت بازی سے واقف نہیں تھے۔عوام کو بتانے کے لئے بیت بازی کیا ہے ٹیلیویژن میں ایک پروگرام پیش کیا گیا۔ادبی پروگراموں میں ایسے شاعروں کا تعارف کیا گیا جن سے لوگ واقف نہیں تھے۔ مثال کے طور پر مجاز ، جانثار اختر، شکیل بدایونی ،میر، غالب ، خلیل الرحمان اعظمی، فیض احمد فیض وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اسکےبعد۱۹۷۲میں منسٹری آف ایجیوکیشن میں ان کا تقرر ایجوکیشن آفسر کی حیثیت سے ہوا۔جہاں ٹیچز ٹرینینگ کالج میں شعبہ اردو میں طالب علموں کو ’’جو مستقبل میں اردو کے اساتذہ بننے والے تھے‘‘ لسانیات، زبان اور ادب پڑھانے کی ذمےداری دی گئی اور بعد میں طریقہ تدریس، نفسیات اور اصولِ تعلیم بھی پڑھانا پڑا۔ٹیچز ٹرینینگ کے بند ہو جانے کے بعد ان کا تقرر ۱۹۸۲ء میں مہاتما گاندھی انسٹی ٹیوٹ میں لکچرر کی حیثیت سے ہوا اور 2003 مین سبکدوش ہوگئے ۔وہ ایک اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں انھوں نے افسانے، ناول اور ڈرامے کے علاوہ ترجمے بھی کیے ہین ان کی مندرجہ ذیل کتابیں سامنے آئی ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ انھوں نے موریشس میں اردو تدریس کو فروغ دینے میں نمایاں کارکردگی کی ہے۔
۱۔ زندہ گزٹ۔۔۔۔یک بابی ڈراموں کا مجموعہ۔
۲۔ اردو اسٹردیز ان موریشس۔مختلف موقعوں کے لئے پڑھے گئے انگریزی میں مضامین۔
۳۔میر تقی میر۔ میر کی دس غزلوں کے ترجمعے۔
۴۔ اپنی زمین ۔ موریشس کا پہلا اردو ناول۔
۵۔ چھوٹا بنگلا نہیں بلکہ ایک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’اردو افسانوں کا ایک مجموعہ‘‘۔
۶۔ یہ میرا چمن ہے میرا چمن۔ ’’اردو ناول‘‘
موریشس میں یہ ان کے ساتھ قاسم ہیر ا اور ریاض گو کھل ساتھ ساتھ تھے ، ان کی کوششوں سے موریشس میں اردو کی تعلیم اور تدریس کے علاوہ اردو تہذیب کو آگے بڑھانے میں ان کے کارہائے نمایاں زریں حروف سے لکھے جائیں گے۔ آج موریشس میں بیشتر اسکولوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے اور ایم ۔اےتک تعلیم کا نظم ہے اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹی وی پر باضابطہ اردو کے پروگرام آتے ہیں ۔ اردو اسپیکنگ یونین کے ذریعے اردو کے فروغ کے لیے کام کیا جاتا ہے ۔ عیدن صاحب اس کے بھی سر گرم رکن ہیں ۔ اس اعتبار سے ددیکھا جائے تو موریشس اورد کی زر خیز سر زمین ہے۔