تعارف
ڈاکٹر شاکرہ نندنی لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اِن کے والد کا تعلق جیسور بنگلہ دیش (سابق مشرقی پاکستان) سے تھا اور والدہ بنگلور انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان آئیں تھیں اور پیشے سے نرس تھیں شوہر کے انتقال کے بعد وہ شاکرہ کو ساتھ لے کر وہ روس چلی گئیں تھیں۔شاکرہ نے تعلیم روس اور فلپائین میں حاصل کی۔ سنہ 2007 میں پرتگال سے اپنے کیرئیر کا آغاز بطور استاد کیا، اس کے بعد چیک ری پبلک میں ماڈلنگ کے ایک ادارے سے بطور انسٹرکٹر وابستہ رہیں۔ حال ہی میں انہوں نے سویڈن سے ڈانس اور موسیقی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ اور اب ایک ماڈل ایجنسی، پُرتگال میں ڈپٹی ڈائیریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔
اس افسانے کے ساتھ انھوں نے موضوع سے مطابقت رکھنے والی پنٹنگ بھی بھیجی ہے جو ان کے شکریے کے ساتھ قارئین کے لیے پیش ہے۔
پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
————————————————————————————————————————————————————————————–
کامیابی کا تاج
ڈاکٹر شاکرہ نندنی، پرتگال
میں اپنی منزل کی جانب چلا جا رہا تھا، آج سورج اپنی جگہ چھوڑ کر بہت نیچے آچکا تھا، جس کی وجہ سے ریت کے ٹیلے گرم سے گرم تر ہو کر سُرخ سُرخ دکھائی دے رہے تھے، گرم ہوا کی وجہ سے سانس لینا دشوار ہو رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ آکسیجن بالکل نہیں ہے، میرے ارد گرد کسی بھی جاندار شے کا وجود نہیں تھا، شاید گرمی سے بچنے کیلئے ہر ایک اپنے آپ کو سورج سے چھپا رہا تھا۔
آخر میں نے سورج سے پوچھا کہ “آج تم اپنی جگہ سے ہٹ کر اتنا نیچے کیوں آگئے ہو؟ دیکھو تمہا ری وجہ سے چلنا مشکل ہو گیا ہے، کوئی بھی جاندار شے دکھائی نہیں دے رہی، ہر چیز تمہاری وجہ سے پناہ لے چُکی ہے، زمین بھی تمہاری گرمی برداشت نہیں کر پا رہی۔”
سورج نے تپ کر جواب دیا کہ “یہ وقت پوچھنے کا نہیں بلکہ اپنے آپ کو سنبھالنے کا ہے، میں تو اپنی منشاء سے چلتا ہوں اور میری ایک ہی جگہ ہے میں کبھی اپنی جگہ کو تبدیل نہیں کرتا، یہ تو زمین ہی ہے جو گردش میں ہے اور وہ میرے ارد گرد چکر لگا رہی ہے، اور آج اس نے اپنی جگہ تبدیل کرکے مجھ سے قریب آنے کی کوشش کی ہے، میں آگ کا گولا ہوں، میرے نزدیک آنے کی کوشش مت کرو بلکہ دور سے دوستی کرو کیونکہ۔۔۔ دُور کے ڈھول سُہانے ہوتے ہیں“
پھر میں نے زمین سے پوچھا کہ تم سورج سے قریب ہونے کیلئے دوسرا دن نہیں چن سکتی تھیں؟
زمین نے چکرا کر جواب دیا کہ “میں اپنے مدار میں ہی گھومتی ہوں، دراصل آج میں تھوڑی بُہت ٹھنڈ محسوس کررہی تھی، مُجھے سورج کی تپش کی ضرورت درپیش ہوئی، جس کی وجہ سے میں نے اپنا گول بدن سورج کی جانب کر دیا، تم اپنے لئے کسی سایہ دار درخت کو ڈھونڈ کر اُس کے نیچے پناہ لینے کی کوشش کرو۔” یہ کہہ کر زمین چُپ ہو گئی۔
میں نے لُو سے بچنے کیلئے چاروں جانب نظریں دوڑائیں مگر مُجھے کوئی سایہ دار درخت کہیں بھی نظر نہ آیا پھر میں نے ایک چھوٹے سے درخت کے نیچے پناہ لینے کی کوشش کی مگر درخت چھوٹا ہونے کے سبب اس کا سایہ بہت کم تھا اوراس سائے میں میرا صرف نصف جسم چُھپ سکتا تھا، ناچار میں نے اسے غنیمت جان کر اپنے سر والے حصے کو درخت کے سایہ میں کر لیا۔
مجھے پیاس بھی شدید لگ رہی تھی، مگر میرے ساتھ جو بچا ہوا پانی تھا وہ بھی اس چلچلاتی دھوپ میں گرم ہو چپکا تھا۔ میں نے پانی پینے کی کوشش کی پانی گرم ہونے کی وجہ سے میرے حلق سے نہیں اُتر رہا تھا۔ چاروں جانب موت کا مہیب سناٹا سا چھایا ہُوا تھا۔ اب میں نہ تو آگے جاسکتا تھا اور نہ ہی پیچھے۔ میرے ارد گرد کسی جاندار شے کا وجود نہیں تھا۔ میرا آدھا جسم سائے میں اور آدھا سورج کے رحم و کرم پر تھا۔ سورج نے میرا ساتھ چھوڑ دیا اور ہوا بھی سورج کے سامنے بے بس تھی۔ زمین اپنے غم میں مبتلا تھی۔ ہر جاندار اپنے آپ کو بچانے کی تگ ودو میں تھا، اب میرے اور خُدا کے درمیان کوئی نہ تھا۔ تب میں نے اپنا چہرہ اوپر کی جانب کر کے خُدا سے عرض کی۔
“اے خدایا! قیامت مرنے سے پہلے آتی ہے یا مرنے کے بعد؟
اوپر سے کوئی جواب نہ آیا۔
میں نے اگلا سوال کیا کہ، کیا میرے مرنے کے بعد اس بیابان میں میری لاش کا دیدار کسی کو نصیب ہوگا یا نہیں؟
اوپر سے اب بھی کوئی جواب نہ آیا۔
اب میں نے تیسرا سوال کیا کہ، جس مقصد کی خاطر میں گھر سے نکلا ہوں کیا وہ ادھورا رہ جائے گا؟
حسبِ سابق پھر بھی کوئی جواب نہ آیا۔
پھر میں نے چوتھا اور آخری سوال کیا کہ، کیا میں اس ویرانے میں گُھٹ گُھٹ کر اس دُنیا سے چلا جائوں گا؟
اس بار بھی کوئی جواب نہ آیا۔
شیطان میری اس حالت پر مجھے دیکھ دیکھ کر قہقہے لگا رہا تھا۔ تب میں نے شیطان سے پوچھا کہ، تم کیوں اتنا ہنس رہے ہو؟ کیا میں نے کوئی گناہ کیا ہے سوال کر کے؟ یا میرے سوال غلط تھے؟
نہیں! نہیں! ۔۔۔ تم نے تو بہترین سوالات کئے ہیں مگر شاید تمہیں معلوم نہیں کہ خدا انسان کے ساتھ براہِ راست بات نہیں کرتا، بلکہ جب انسان پاگل ہو جاتا ہے تو یہی سمجھنے لگتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ براہِ راست بات کر رہا ہے۔ اب تمہیں بچانے والا کوئی نہیں، تم یہاں گُھٹ گُھٹ کر مرو گے۔ تمہارا دیدار کسی کو نصیب نہ ہو گا۔ تمہارے جسم کا سارا گوشت صحرا کے جانور کھا جائیں گے۔ تمہاری ہڈیاں ہر طرف بکھر جائیں گی۔ تم اپنے مقصد میں اُس وقت تک کامیاب نہ ہو پائو گے جب تک تم خدا کو بھول کر میرے پیروی نہیں کرو گے۔ جو تم نے سوچا تھا وہ سب بھول جاؤ۔ اب اپنی موت کا انتطار کرو تمہیں بچانے والا کوئی نہیں آئیگا۔ آئو میرے ساتھ شامل جائو۔ میری پیروی کرو۔ میری نصیحتوں پر عمل کرو۔ میں تمہیں دُنیا میں ہیرو بنادوں گا۔ ہر طرف تمہارا ڈنکا بجے گا، دولت کمانے میں، میں تمہاری مدد کروں گا اور جب تم دولت مند بن جائو گے تب لو گ خود بخود تمہاری عزت کریں گے۔ کیا تُم، میرے ساتھی بنو گے؟
میں غُصّے میں اُٹھ کھڑا ہوا اور گَرج کر کہا، نہیں!!!!!! ایسا نہیں ہو سکتا مجھے پتہ ہے کہ ”جس کا کوئی نہیں تواُس کا خدا ہوتا ہے“۔
مجھے خدا پر پورا بھروسہ ہے، میں جس مقصد کی خاطر گھر سے نکلا ہوں وہ مقصد ضرور پورا ہو جائے گا۔ تم، میرے اور میرے خدا کے درمیان بولنے والے ہوتے کون ہو؟
مجھے اپنے خدا پر پورا یقین ہے اور یقین ہی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ کہہ کر جب میں شیطان کی جانب دیکھا تو وہ غائب ہو چُکا تھا۔
درختون کے سائے بڑھ چُکے تھے، سورج کی گرمی کَم ہو چُکی تھی۔ پانی بھی ٹھٹندا ہو چکا تھا۔ میں نے خُدا کا نام لے کر پانی پیا، اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو دیکھا سورج کی شدت ختم ہو چُکی تھی اور میں بھی اپنے آپ کو بہتر محسوس کر نے لگا ٹھا۔ تب مجھے ایک دانشور کا قَول یا د آیا۔
”جب تقدیر کسی پر مہربان ہونا چاتی ہے تو پہلے اسے مشکلات میں ڈال کر اس کا امتحان لیتی ہے، کہ آیا یہ انسان اس قدر مضبوط ہے کہ کامیابی کا تاج اس کے سر پر رکھا جاسکے“
اب میرے پاؤں میں بھی کھوئی ہوئی طاقت واپس آرہی تھی۔ میں نے خُدا کا شکر ادا کیا اور اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔