You are currently viewing کالج کی سطح پر اردو تدریس میں ٹیکنالوجی کا استعمال

کالج کی سطح پر اردو تدریس میں ٹیکنالوجی کا استعمال

  ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
  صدر شعبہ اردو این ٹی آر ڈگری کالج
محبوب نگر تلنگانہ اسٹیٹ

کالج کی سطح پر اردو تدریس میں ٹیکنالوجی کا استعمال

 موجودہ دور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے غلبے والا دور ہے۔ تعلیمی شعبے میں اس دور کے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا اساتذہ اور طلبا دونوںکے لیے ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے معاملے میں طلبا اساتذہ سے آگے ہوتے ہیں اور مشاہدہ ہے کہ آج ہر طالب علم اسمارٹ فون اور کمپیوٹر کے استعمال سے بخوبی واقف ہے لیکن اردو میڈیم کے طلبا کے بارے میں ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہء صد فیصد اسمارٹ فون یا کمپیوٹر رکھتے ہیں یا وہ اس کے استعمال سے بخوبی واقف ہیں وسائل کی کمی کے سبب بھی غریب طلبا چاہتے ہوئے بھی ٹیکنالوجی کو حاصل نہیں کرسکتے لیکن کالج میں دستیاب وسائل سے انہیں استفادہ کرنا چاہئے اس کے لئے اساتذہ کی رہبری ضروری ہے۔ کالج کی سطح پر اردو تدریس کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ جونیر اور ڈگری کالج میں زبان دوم کے طور پر اردو پڑھائی جاتی ہے۔اکثر اردو پڑھانے والے اساتذہ کی سوچ ہوتی ہے کہ زبان دوم ہی ہے نا اسے کیوں اہمیت دی جائے کچھ نوٹس فراہم کردئے جائیں کوئی گائیڈ مہیا کردی جائے طلبا امتحان کامیاب کرلیں گے۔ لیکن اپنے مضمون سے حقیقی ہمدردی رکھنے والا استاد اپنے مضمون کی تدریس سے کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا وہ دستیاب وسائل سے اردو مضمون کی تدریس کو بہتر بنائے گا۔ اور خود کو اور اپنے طلبا کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرے گا۔
اردو تدریس میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے قبل آئیے دیکھیں کہ ہمارے اساتذہ‘طلبا کے ساتھ اور کالجوں میں کون کونسے ٹیکنالوجی کے وسائل موجود ہیں۔ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون اب ٹیکنالوجی کے دو اہم ذرایع کے طور پر ہمارے سامنے دستیاب ہیں جب کہ کالج میں اسمارٹ کلاس اور ای کلاس روم اور کمپیوٹر لیب کی سہولتیں طلبا اور اساتذہ دونوں کو دستیاب ہیں۔ اردو اساتذہ کو اپنے گھر میں کمپیوٹر اور دوران سفر یا کالج میں لیپ ٹاپ ضرور استعمال کرنا چاہئے۔ اسمارٹ فون تو اساتذہ اور طلبا دونوں استعمال کرتے ہیں۔ان دنوں جیو انٹرنیٹ کی بدولت انٹرنیٹ ڈاٹا بھی وافر مقدار میں سبھی کو دستیاب ہے۔ اور انٹرنیٹ کے سرچ انجن گوگل کے دعوے’’ یہاں سب کچھ ملتا ہے‘‘ کہ مطابق انٹرنیٹ کو اگر تعلیم کے لئے استعمال کیا جائے تو بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کے وسائل کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کی دستیابی کے بعد جب اس میں اردو کے استعمال کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے اردو اساتذہ اور پھر طلبا کو یہ معلوم رہنا چاہئے کہ اب کمپیوٹر کے کسی بھی حصے میں یعنی ایم ایس آفس کے کسی بھی پروگرام میں اردو یونیکوڈ نظام کے بدولت اردو لکھی جاسکتی ہے۔ اردومیں ایم ایس آفس ورڈ فائل بنائی جاسکتی ہے۔ اردو میں پاور پوائنٹ کے ذریعے اسباق تیار کئے جاسکتے ہیں اور کسی بھی قسم کا کام اردو میں کیا جاسکتا ہے۔ کمپیوٹر میں اردو فانٹس شامل کرنے کے لئے اردو نستعلیق فانٹس ایم بلال ایم کی ویب سائٹ سے حاصل کئے جاسکتے ہیں جہاں پاک اردو انسٹالر پر کلک کرنے سے فائل ڈائون لوڈ ہوجائے گی پروگرام سٹ اپ کرنے اور سسٹم ری اسٹارٹ کرنے کے بعد نیچے ٹاسک بار کے دائیں جانب Enیا URدکھای دے گا۔آپ اردو لکھنا ہے توUR منتخب کرتے ہوئے اردو لکھ سکتے ہیں۔ پہلے کمپیوٹر پر اردو لکھنے کے لئے ان پیج سافٹ ویر استعمال کیا جاتا تھا یہ ایک تصویری سافٹ ویر ہے اور انٹرنیٹ سرچنگ میں کام نہیں آتا اس لئے اب کمپیوٹر میں جو بھی مضامین وغیرہ لکھے جارہے ہیں وہ سب ایم ایس ورڈ میں یونیکوڈ نظام کے تحت نستعلیق فانٹس استعمال کرکے لکھے جارہے ہیں۔ فون میں اردو لکھنا کمپیوٹر کی بہ نسبت آسان ہے۔ گوگل پلے اسٹور سے سوفٹ کی یا کوئی بھی اردو کی بورڈ ڈائون لوڈ کرکے اردو لکھا جاسکتا ہے۔ سوفٹ کی میں یہ سہولت ہے کہ انگریزی کی طرح اردو میں بھی اوپر الفاظ کی پیش قیاسی کی جاتی ہے مثال کے طور پر ایک مرتبہ آپ نے اردو ٹائپ کیا اگلی بار  ار  لکھتے ہی اردو دکھائے گا جسے منتخب کرنے سے اردو ٹائپ ہوجائے گا۔ اس طرح آپ پہلی مرتبہ جو بھی لفظ لکھیں گے وہ سافٹ ویر کی میموری میں محفوظ ہوتا جائے گا اور آگے تیز رفتاری سے ٹائپ کرسکتے ہیں۔ جن لوگوں کو اردو ٹائپ میں دشواری ہے ان کے لئے گوگل نے نئی سہولت گوگل وائس ٹائپنگ کی شروع کی ہے پہلے یہ سہولت انگریزی میں تھی اب بشمول اردو تمام بڑی زبانوں میں آواز کی مدد سے ٹائپ کرسکتے ہیں۔اس کے لئے فون سٹنگ میں گوگل وائس ٹائپنگ میں صرف اردو بھارت منتخب کرتے ہوئے ہم فیس بک واٹس اپ یا فون کے کسی بھی پیغام میں آواز کی مدد سے اردو ٹائپنگ کرسکتے ہیں یعنی آپ درست تلفظ کے ساتھ ٹہر ٹہر کر واضح آواز میں اردو بولیں تو آپ کے کہے گئے الفاظ اردو میں ٹائپ ہوتے جائیں گے غلط الفاظ کو درست کرنے کی بھی سہولت موجود ہے۔
جب اردو کے استاد اور طالب علم کو یہ پتہ چل جائے کہ کمپیوٹر اور اسمارٹ فون میں اردو لکھ سکتے ہیں تو اس سہولت کو وہ اردو پڑھنے اور اردو کے فروغ کے لئے استعمال کریں۔ کہا جارہا ہے کہ اب ہمارے طلبا کے ہاتھ سے اخبار اور کتاب چلی گئی ہے اس کی جگہ اسمارٹ فون نے لے لی ہے تو اردو کا ایک ہمدرد استاد اپنے طلبا کو اسمارٹ فون کے اسکرین پر اردو اخبار اور اردو کتابیں فراہم کرسکتا ہے اور ان سے مطالعہ بھی کرواسکتا ہے۔ واٹس اپ پر ان دنوں دو ریسرچ اسکالرس سید عمران اور دفعدار عبدالبصیر اردو دنیا کے نام سے ایک گروپ چلا رہے ہیں جس میں صبح کے اوقات میں سبھی مقبول اردو اخبارات اور رسائل کی پی ڈی ایف فائل بھیج رہے ہیں اردو کا استاد اس گروپ میں شامل ہو اور طلبا کے لئے ایک الگ گروپ بنائے اور روزانہ اس میں اردو اخبارات شئر کرے اور طلبا سے کہے کہ وہ ان اخبارات کا مطالعہ کریںاستاد اردو کمرہ جماعت میں ان سے اخبارات کی اہم خبروں کے بارے میں استفارات کرے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر سبھی اخبارات کے ای ایڈیشن دستیاب ہیں۔ ان کے مطالعے کی ترغیب دلائی جائے۔  اسی طرح کتابوں کے مطالعے کے ضمن میں یہ کیا جاسکتا ہے کہ اردو کی مقبول کتابیں شعرائے اردو کا مجموعہ کلام اب گوگل پلے اسٹور اور انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں۔ استاد اردو ان کتابوں کو اپنے فون سے طلبا تک پہونچائے اور ان کتابوں سے کوئی مفوضہ کام دیا جائے تو طلبا غور سے کتابیں پڑھیں گے۔ گوگل پلے اسٹور پر کلیات اقبال۔کلیات غالب۔کلیات پروین شاکر اور دیگر کتابیں ہیں۔ تدریسی ضرورت کے تحت بھی ہم طلبا سے ان کتابوں کا مطالعہ کرواسکتے ہیں۔ تلنگانہ میں ڈگری سال اول کی کتاب مطالعہ ادب میں ایک مضمون حکایات سے متعلق ہے۔ اس مضمون کی تدریس کے بعد گھر کے کام کے طور پر راقم نے فون سے حکایات سعدی کتاب ڈائون لوڈ کی اور طلبا کو شیر  اٹ کے ذریعے کتاب تقسیم کی۔ اور طلبا کو اس کتاب سے گھریلو کام کرکر لانے کے لئے کہا۔اسی طرح ابولکلام آزاد کے خطوط کے مجموعہ غبار خاطر سے طلبا کو گھریلو کام دیا گیا۔ اقبال کے منتخب اشعار لکھ کر لانے کے لئے کہا گیا۔ راقم نے سبھی ڈگری نوٹس کی پی ڈی ایف فائل تیار کی ہیں اور طلبا کو فون کے ذریعے منتقل کردیا ہے طلبا اپنی سہولت سے گھر میں یا کہیں پر بھی فائل کھول کر اپنے نوٹس کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ اسی طرح یہ نوٹس گری راج کالج کی ویب سائٹ شعبہ اردو کے بلاگ پر دستیاب ہیں۔اردو کے استاد کو نئی چیزیں سیکھتے رہنا چاہئے ۔ راقم کی کوشش تھی کہ کوئی ایسا سافٹ ویر مل جائے جس سے کمپیوٹر اسکرین پر موجود مواد کو ویڈیو کی شکل دی جائے۔ چنانچہ راقم نے او کیام نامی اسکرین کیاپچر سافٹ ویر کی مدد سے اردو نوٹس کے ویڈیو تیار کئے ہیں جس کے لئے نوٹس کے مواد کو پہلے طلبا کی مدد سے آڈیو ریکارڈ کیا گیا پھر کمپیوٹر اسکرین پر نوٹس کی ان پیج فائل کو اوپن کرتے ہوئے فون کے آڈیو فائلس پلے کرتے ہوئے آواز اور تحریر کے ساتھ ویڈیو تیار کئے گئے ہیں اور ان ویڈیوز کو یوٹیوب پر اپ لوڈ کرکے تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے سبھی اردو اساتذہ کو دئے گئے ہیں تاکہ وہ اپنے طلبا تک ان ویڈیوز کی رسائی کریں۔ یہ ویڈیوز یوٹیوب پر aslam faroquiٹائپ کرتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس پروگرام کا مقصد یہ تھا کہ طلبا کو درست تلفظ کے ساتھ اردو اسباق سنانا۔ طلبا کو شامل کرتے ہوئے یہ پراجکٹ مفت میں تیار کیا گیا ۔ اسی طرح شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد کی جانب سے اردو رسم الخط کے تحفظ اور فروغ کا ایک اختراعی پروگرام طلبا کی مدد سے کیا گیا۔ پروگرام کا نام ’’فون میں اردو گھر گھر میں اردو ‘‘رکھا گیا۔طلبا کو اس نعرے کی پرنٹڈ جرسی پہناتے ہوئے شہر کے اسکولوں کالجوں اور بازاروں میں گشت کی گئی اور اساتذہ اردو طلبا اور شہر کے لوگون کے اسمارٹ فون میں اردو سافٹ ویر شامل کرتے ہوئے برسر موقع لوگوں کو فون میں اردو ٹائپ کرنا سکھایا گیا۔ لوگوں نے اس مہم کا خیر مقدم کیا اور جب فیس بک پر اس مہم کی تصاویر پیش کی گئیں تو ملک اور بیرون ملک لوگوں نے اس اختراعی پروگرام کا خیر مقدم کیا۔NAACمعائنے میں اس طرح کی سرگرمیوں سے اچھے نشانات حاصل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح شعبہ اردو گری راج کالج کے طلبا کے لئے ایک فیس بک گروپ ’’شمع فروزاں‘‘ تیار کیا گیا ہے۔ جس میں کالج کے موجودہ اور سابق طلبا اور ملک و بیرون ملک کے ماہرین تعلیم شامل ہیں۔ طلبا کے لئے اس گروپ میں اردو ادب کا انتخاب۔ اہم نوٹسیں اور دیگر معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ہمیں شکایت تھی کہ طالب علم کالج کو پابندی سے نہیں آتے اور وہ امتحانات میں بہتر مظاہرہ نہیں کرتے لیکن اب ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک استاد اور طلبا ہمیشہ رابطے میں رہ سکتے ہیں اورانہیں سماجی رابطے سے تعلیم کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح سبھی کلاس کے طلبا کے الگ الگ واٹس اپ گروپ اور فیس بک گروپ بنادئے گئے ہیں ۔ جن سے طلبا اپنے اساتذہ سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اساتذہ اردو کو چاہئے کہ وہ اپنے طلبا کو لازمی کردیں کہ وہ فیس بک اور واٹس اپ پر صرف اردو میں ہی لکھیں۔ طلبا کو مختلف عنوانات کے تحت اشعار پوسٹ کرنے یا موضوعاتی مذاکرے میں اپنے خیالات پیش کرنے کے لئے کہا جائے ۔ راقم نے ان گروپس میں طلبا کو اہم معلوماتی ویڈیوز شئر کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ کچھ طلبا نے آئی اے ایس کی تیاری کے لئے مواد کی تیاری فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا انہیں بھی اسی واٹس اپ مسیجنگ سہولت سے معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ کالج میں طلبا کا تقریری مقابلے ہوں یا کوئی پروگرام اسے فیس بک لائیو کے ذریعے براہ راست نشر کیا جاسکتا ہے۔ طلبا کا مظاہرہ آپ کے دوست احباب دیکھیں گے اور ان کے تاثرات سے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ کالج کے طلبا کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے ان کی تخلیقات کو ٹائپ کرکے شعبہ اردو کے آن لائن میگزین میں شائع کیا جائے۔ استاد اردو کمرہ جماعت میں بھی ٹیکنالوجی کو استعمال کرسکتا ہے۔ ابھی بھی ہر جماعت میں اسمارٹ بوڑد نہیں ہے اور ہم ای کلاس روم میں روزانہ کلاس نہیں لے سکتے دوران تدریس استاد اردو کو لگتا ہے کہ طلبا کو انٹرنیٹ سے کوئی چیز دکھائی جائے یا کوئی آواز سنائی جائے مثال کے طور پر آپ غالب کی غزل پڑھا رہے ہیں تو اپنے فون میں غالب کی تصویر سرچ کرکے دکھا سکتے ہیں غالب کی زندگی پر بنی فلم اور سیریل کے ویڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہیں ۔ اس میں سے کوئی ویڈیو آپ فوری طلبا کو دکھانا چاہتے ہیں لیکن آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے فون کی آواز کمرہ جماعت کے سبھی طلبا تک نہیں پہونچ رہی ہے تو اس کا حل یہ ہے کہ بازار میں ان دنوں چھوٹا سا بلو ٹوتھ اسپیکر صرف تین سو روپئے میں دستیاب ہے جسے چارجنگ کے بعد ایک گھنٹہ بڑی آواز کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے فون سے اس بلو ٹوتھ اسپیکر کو جوڑ کر ہم دوران تدریس کمرہ جماعت میں کوئی بھی ویڈیو کی آواز کو بڑی آواز میں سنا سکتے ہیں ۔ راقم نے اردو نوٹس کے جو ویڈیو تیار کئے ہیں دوران تدریس سبق کے اعادے کے لئے ان اسپیکر سے مد د لی جارہی طلبا خاموشی سے آواز سنتے ہیں اور ان کی تدریس کا عمل جاری رہتا ہے۔پہلے تدریسی ساز و سامان میں کتاب ڈسٹر چاک پیس وغیرہ تھے اب اسمارٹ فون بھی ہمارے تدریسی آلات کا اہم حصہ بن گیا ہے۔استاد اردو اگر ٹیکنالوجی سے جڑا ہوتو وہ تعلیم کے فروغ میں ٹیکنالوجی کو استعمال کرسکتا ہے۔ راقم نے اسکائپ کالنگ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے اپنے کالج کے قومی سمینار میں کناڈا سے ڈاکٹر تقی عابدی کا براہ راست لیکچر کروایا۔ لیپ ٹاپ کو پرجیکٹر سے جوڑتے ہوئے بڑے پردے پر ایک گھنٹے تک بغیر کسی رکاوٹ کے لیکچر جاری رہا۔ اچھی آواز کے حصول کے لئے آڈیو آئوٹ پٹ جیک میں کیبل لگا کر ایمپلی فائر میں لگادینے سے آواز صاف آتی ہے اور تصویر پروجیکٹر پر آتی ہے اس لیکچر میں دونوں طرف سے بات کی گئی۔ اس تجربے کو جاری رکھتے ہوئے راقم نے نظام آباد سے ایم وی ایس کالج براہ راست طلبا کو لیکچر دیا۔ جب اس لیکچر کی تصاویر فیس بک پڑ ڈالی گئیں تو لکھنو سے معاشیات کی ایک لیکچرر محترمہ عذرا بانونے کہا کہ وہ بھی اس طرح کا آن لائن لیکچر دینا چاہتی ہیں تو اس کا انتظام کیا گیا اس طرح ایک اردو استاد کی پیشرفت سے معاشیات مضمون میں آن لائن لیکچر کروایا گیا۔ اس تجربے کو دیکھ کر مانو کے اردو ریفریشر کورس میں ڈاکٹر نسیم الدین فریس نے مجھ سے اس ٹیکنالوجی کی تفصیلات لیں اور حیدرآباد میں علیل ماہر دکنیات ڈاکٹر محمد علی اثر کے گھر لیپ ٹاپ لے جا کر ریفریشر کورس کے شرکا کے لئے کامیاب آن لائن لیکچر کروائے۔ اس طرح کے لیکچر کی خاص بات یہ ہے کہ وقت اور اخراجات سے بچا جاسکتا ہے۔ مغربی ممالک میں اب سمینار کی جگہ ویب نار اسی طرز پر ہورہے ہیں۔ اب اسمارٹ فون پر آئی ایم او کالنگ یا واٹس اپ ویڈیو کالنگ سہولت ہے ۔گوگل پلے اسٹور میں فون کے اسکرین کو کمپیوٹر پر پیش کرنے کی سہولت ہے اس طرح ہم فون پر لیکچر دے کر بھی اس کی تصویر اور آواز کو بڑے اسکرین پر پیش کرسکتے ہیں۔ اردو اساتذہ اپنے سمینار کے ویڈیوز اور اہم لیکچر کو فون پر ریکارڈ کرکے یوٹیوب پر اپ لوڈ کرسکتے ہیں راقم نے یہ سلسلہ چار سال قبل شروع کیا اور اب تک میرے دیڑھ سو سے زائد ویڈیوز یوٹیوب پر موجود ہیں اور انہیں دیکھنے والوں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ اگر ہم ان ویڈیوز کے ٹائٹل مقبول رکھیں جیسے میرا ایک لیکچر ہے ’’ایتھیکس اینڈ ہیومن ویلیوز‘‘ تو سرچنگ میں زیادہ لوگ دیکھ سکتے ہیں۔ یوٹیوب پر اپنے ویڈیوز پر اشتہارات شروع کرنے کی سہولت بھی ہے جسے ایڈ سنس کہتے ہیں اگر یہ شروع کیا جائے اور آپ کے ویڈیوز کو ہزاروں لوگ دیکھتے ہیں تو آپ کو یوٹیوب ڈالر کی شکل میں معاوضہ بھی دے گا بہت سے ہنر مند نوجوان کامیڈی ویڈیو بنا کر یوٹیوب سے پیسے کما رہے ہیں ۔ استاد اردو اگر اپنے لیکچر کا ویڈیو ریکارڈ کروائے تو اس کی سی ڈی کالج لائبریری میںرکھ دے۔ آج کل کالج کی لائبریری کے ایک ہال میں ایک بڑا مانیٹر لگایا جا رہا ہے۔ اور اگر کسی دن لیکچرر غیر حاضر ہو تو لائیبریری کا انچارج طلباء کے لئے اس مضمون سے متعلق سی ڈی لگائے اور ساری کلاس ایک لیکچرر کی غیر موجودگی کے باوجود وقت پر ایک اہم لیکچر سے مستفید ہوسکتی ہے۔ اگر آپ اچھے قلم کار ہیں اور اردو میں معیاری کالم لکھتے ہیں تو اردو بلاگ بنا کر اس پر اپنی تحریریں پیش کریں اور اسے سوشل میڈیا پر شئر کریں اس پر اشتہارات پیش کریں آپ اپنے قلم سے پیسے کما سکتے ہیں۔اردو استاد کی اگر کوئی کتاب شائع ہوئی ہو تووہ اسے اردو کتب کی کسی ویب سائٹ پر پیش کرسکتا ہے راقم کی تین کتابیں بزم اردو ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ڈاکٹر فضل اللہ مکرم صاحب کی اردو ویب سائٹ جہان اردو ان دنوں مقبول ہے اس پر اپنے مضامین اور کتابیں پیش کرسکتے ہیں۔اردو کے استاد کو تدریس کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی لکھتے رہنا چاہئے اور انہیں یوجی سی کے مقرر کردہ رسائل میں شائع کروانا چاہئے ۔ تحقیقی مضامین لکھنے کے دوران ہمیںکوئی کتاب درکار ہو تو اب کتب خانے کا چکر لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔اردو کتابوں کی مقبول ویب سائٹ ریختہ ڈاٹ کام ‘قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی ویب سائٹ یا بزم اردو پر موجود قدیم و جدید بہت سی کتابیں آپ کو مطالعے کے لئے مل جائیں گی جس سے آپ اپنے تحقیقی کام میں مدد لے سکتے ہیں۔ اساتذہ اردو کو چاہئے کہ وہ اپنے مضامین انٹرنیٹ کے مشہور اردو ویب سائٹس مضامین ڈاٹ کام۔ جہان اردو ۔بصیرت آن لائن اور دیگر ویب سائٹس پر پیش کرسکتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب آرزو تھی کہ ہماری تصویر یا نام گوگل سرچ میں نظر آجائے اگر آپ کوئی تحریر اپنی تصویر کے ساتھ گوگل میں اپ لوڈ کرتے ہیں تو آپ کا نام گوگل ویب میں اور تصویر گوگل امیجز میں نظر آئے گی۔ اردو استاد کو چا ہئے کہ وہ خود بھی ٹیکنالوجی کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتا رہے اور اپنے طلبا کو بھی ٹیکنالوجی کو تعلیم اورترقی میں استعمال کرنے کے لئے کہے۔لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ٹیکنالوجی کے حصول کے وسائل نہیں ہیں تو ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں کہ جب ہم دوسرے کاموں میں خرچ اور اسراف کرتے ہیں ایک اسمارٹ فون کے لئے رقم کیوں اکھٹا نہیں کرسکتے ۔ اردو اساتذہ اور طلبا کے لئے ضروری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی سیکھنے میں دلچسپی دکھائیں آپ کوئی بھی نئی چیز سیکھنا چاہتے ہیں تو یوٹیوب میں مناسب سوال ٹائپ کریں آپ اپنی زبان میں اس مسئلے کا حل دیکھ سکتے ہیں۔ بہر حال حالات سے ہم آہنگ ہونا ہی زندگی کی علامت ہے ۔ اور امید ہے کہ اردو طلباء اور اساتذہ بھی زندگی کی اس دوڑ میں آگے رہیں گے۔

Leave a Reply