You are currently viewing ڈاکٹرنگہت نسیم: سڈنی، آسڑیلیا
ڈاکٹرنگہت نسیم: سڈنی، آسڑیلیا

ڈاکٹرنگہت نسیم: سڈنی، آسڑیلیا

ڈاکٹرمہوش نور

ڈاکٹرنگہت نسیم: سڈنی، آسڑیلیا

اصل نام: نگہت نسیم

قلمی نام: نگہت نسیم

تخلص: نگہتؔ

پیدائش:  3فروری1959 میں شیخ پورہ،ضلع لاہور،پاکستان

موجودہ سکونت: آسٹریلیا

نگہت نسیم 3فروری1959 میں شیخ پورہ،ضلع لاہور،پاکستان کے ایک علمی ومذہبی خانوادے میں پیدا ہوئیں۔ہر انسان کی زندگی کا پہیہ اس کے خاندان،احباب اور ماحول کے گرد گھومتا ہے۔تعلقات اور رشتوں سے متعلق جب ہم ان کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا شمار ان خوش بخت لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں خاندان کی وجہ سے عزت بھی ملی،جنہیں احباب کی محبت بھی ملی،اور جن کے خمیر میں ماحول کی خوشبو بھی عطر ریز رہی۔خالق دو جہان نے ان کے لیے بہترین والدین منتخب کیے اور والدین کی دی ہوئی تعلیم و تربیت کو پروان چڑھانے کے لیے پاکیزہ و مطہر ماحول عطا فر مایا اور یہ اسی ماحول کا اثر تھا جس میں قلم کی پاسداری کی ذمہ داری نگہت نسیم کے علاوہ ان کی چھوٹی بہن دلشاد نسیم(ناول نگار(متاع جان)،افسانہ نگار،جیو ٹی وی کی متعدد ڈراموں کی رائٹر،پروڈکشن منیجر)کے حصے میں بھی آئی۔دلشاد ایک اچھی ڈرامہ نگار ہیں پر اس سے اچھی افسانہ نگار ہیں۔

نگہت نسیم کے والد گرامی محمد نسیم اشرفی اور ان کی والدہ ماجدہ رقیہ بیگم دونوں ہی دینی سوچ کے حامل اور درویش صفت انسان ہیں۔انہوں نے اپنے بچوں کو وہ دین دیا جو دنیا کی جائز اور حلال نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کی اجازت دیتا ہے اور تصنع،بناوٹ اور اصراف سے منع کرتا ہے۔

نگہت نسیم کے آٹھ بہن بھائی ہیں۔نگہت نسیم،دلشاد نسیم،نزہت نسیم،شہزاد،افضال،شاہد،جاوید،عاصم۔بہن اور بھائیوں کی شادی ہو چکی ہے اور اپنی ازدواجی زندگی کے گلستاں میں ایک کامیاب اور خوبصورت زندگی گزار رہے ہیں۔

 نگہت نے ابتدائی تعلیم کچھ ایسٹ پاکستان چاٹگام سے لی اور کچھ کراچی سے۔نگہت نے میٹرک کراچی میٹرو پولیٹن اسکول سے کیا،ایف ایس سی اپوا کالج کراچی سے کیا،پوسٹ گریجویشن کراچی سے کیا،ایم بی بی ایس پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے کیا،اے ایم سی نیو ساؤتھ ویلز بورڈ سے کیا،ڈپلومہ ان سائیکا لوجی،آسٹریشیا بورڈ سے کیا،ایم پی ایچ یو نیور سٹی آف نیو ساؤتھ ویلز سے کیا اور ایم ڈی سائیکا ٹری،نیوساؤتھ ویلز انسٹی ٹیوٹ آف سائیکاٹری سے کیا۔

تعلیم کے دوران ہی نگہت نسیم کی شادی 12/نومبر1987میں ایک معزز اور اہل علم خاندان میں ہوگئی۔ان کے شوہر کا نام آفتاب ہے۔نگہت کے شوہر کے والد مرحوم غلام مصطفی بڑے ہی صاحب علم دوست شخص تھے۔وہ پاکستان میں اسٹیل مل کے منیجر تھے۔

آفتاب کے خاندان میں علمی ذوق و شوق اور حسن و اخلاق اعلیٰ درجے کا ہے اور آج بھی ان کے ذہین و فطین اور ہونہار بچوں نے علم کے چراغ کو روشن کیے ہوئے ہیں۔آفتاب نے ماسکو یونیور سٹی سے انجینئر نگ میں ایم ایس کیا ہے۔آفتاب کو ادب سے بھی بہت دلچسپی ہے۔آفتاب کے بارے میں نگہت بڑے شوخ لہجے میں لکھتی ہیں

”خط کے علاوہ کچھ نہیں لکھ سکتے اور وہ بھی انگریزی میں۔ڈرتی ہوں کہ اگر اردو میں لکھا تو ماضی،حال،مستقبل سب بے حال ہو جائے گا۔ہاں ادبی ذوق بے حد نفیس ہے۔گھر کو لائبریری بنا رکھا ہے۔میرے افسانوں پر دل کھول کر تبصرہ کرتے ہیں۔یوں وہ میرے بہترین دوست بھی ہیں اور قاری بھی۔“

موصوف حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت کا بھی مجسمہ ہیں۔آفتاب اپنی اہلیہ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں ا ن کے تعلقات اپنی شریک حیات سے نہ صرف مخلصانہ ہیں بلکہ ہزار جان سے ان کے والا و شیدا ہیں۔ہر قدم اور ہر موڑ پر آفتاب نے اپنی شریک حیات کا پورا پورا ساتھ دیا۔ادبی تخلیق کی ”شب زندہ وادیوں“میں کبھی خلل نہیں ڈالا بلکہ ادبی تخلیق میں قوت و توانائی بن کر سائے کی طرح رومانی تقویت بخش رہے ہیں۔

ڈاکٹر نگہت نسیم کے تین بچے منیب،نجیب اور آمنہ ہیں۔ 26/نومبر1994میں معاشیات کے سلسلے میں نگہت کو آسٹریلیا کی سکونت اختیار کرنی پڑی اور نگہت کی اس جدائی وطن کا یہ کرب ان کی کتاب میں شامل محترم احمد ندیم قاسمی کے اس شعر سے عیا ں ہوتا ہے اور اس شعر کی بنیاد پر ہی نگہت نے اپنے پہلے افسانوی مجموعے کا نام ”گرد باد حیات“رکھا ہے۔ملاحظہ ہو

یہ جو گرد باد حیات ہے کون اس کی زد سے بچانہیں

مگر آج تک تیری یاد کو میں رکھوں سنبھال سنبھال کے

مغربی ماحول میں رہ کر بھی ان کے بچے مذہب،مشرقی تہذیب و روایات کے دلدادہ ہیں اور ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔مثال کے طور پر کچھ سطریں پیش خدمت ہیں

”سوچتی ہوں کہ آسٹریلیا کی ہجرت نے میرے بچوں سے ان”خوبصورت یادوں“ کو بھی ہجرت سکھادی ہے!!تب میرا بڑا بیٹا منیب بڑی محبت سے کہتا ہے”ممی ہم جہاں کہیں بھی رہے اپنے کلچر اور مذہب سے اس وقت تک دور نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم خود نہ چاہیں۔“تو میں فخر سے اسے ایک نظر دیکھتی ہوں جو مجھ سے قد میں اتنا بڑا ہے کہ مجھے سر اٹھا کر دیکھنا پڑتا ہے اور پیارا اتنا ہے کہ نظر جھکانی پڑتی ہے۔“

یہ محبت، عزت ا ور احترام میں ڈوبی تحریر اس بات کی گواہ ہے کہ نگہت نسیم نے اپنے ماں باپ سے محبت اور ان کی فرمانبرداری کی زمین میں جو پھولدار اور پھلدار شجر لگائے تھے اس کے پھول اور میٹھے پھلوں سے آج ان کی اولاد نے ان کے آنچل کو بھر دیا ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ کبھی کسی کی نیکی ضائع نہیں کرتا۔

نگہت نسیم جس گھرانے کی چشم و چراغ ہیں وہ بہت ہی معزز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانہ ہے۔جس ماحول میں نگہت کی پرورش ہوئی وہ بہت حد تک دینی،علمی اور ادبی تھاا ور اسی ماحول کا اثر تھا کہ اس نے نگہت کے نازک ہاتھوں میں قلم تھما دی۔یوں تو ہر انسان کو خدا نے تخلیقی قوت دی ہے لیکن غالب اکثریت اپنی پوری طبعی حیات میں اسے کبھی بھی اجاگر نہیں کر پاتے لیکن نگہت نسیم کا شمار ان خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے جنہیں تعلیم کے ساتھ ساتھ ادب سے لگاؤ اور قوت اظہار کی دولت اپنے والدین کی آغوش سے ملی اور اس تخلیقی عمل میں بیرونی ماحول سے ہٹ کر زیادہ ان کے گھر کا ماحول معاون بنا۔بھائی بہن گھر میں صرف کتابوں ہی کی باتیں کرتے تھے،ان کے گھر میں تازہ خبر صرف کسی شاعر کا تازہ کلام ہوا کرتی تھی۔زخم نئے ہوں یا پرانے نشان تو چھوڑ ہی جاتے ہیں،وہ چاہے دل پر رہ جائیں یا جسم پر۔ایسٹ پاکستان میں جو سانحہ ہوا اس نے نگہت کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور پھر ان کتابوں کا اثر ایک سحر کی طرح قلم کو کاغذ تک لے آیا۔علاوہ ازیں ڈاکٹری کے پیشے نے بھی غیر شعوری طور پر اس میں اہم رول اد کیا ہے کہ معالج کے طور پر ڈاکٹر کو کسی بھی مریض کو سرسری طور پر نہیں دیکھنا ہوتا ہے بلکہ اکثر اوقات مریض کے خاندانی پس منظرتک کوجاننا پڑتا ہے یہی وہ جزئیات ہیں جو نگہت کے قلمی سفر میں دوسرے لکھنے والوں کی نسبت زیادہ واضح طور پر نمایا ں ہوئی ہے۔اس کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ایک ڈاکٹر کے طور پر اور خاص طور پر نفسیاتی مریضوں سے نپٹتے ہوئے نہایت ذہنی دباؤ میں رہنا پڑتا ہے اور بعض اوقات مریض تو تندرست ہو جاتا ہے لیکن ڈاکٹر پر ذہنی دباؤ کبھی مہینوں اور کبھی برسوں برقرار رہتا ہے۔ایسے میں اس ذہنی دباؤ سے نجات کا بہترین ورد قلم کی رفاقت ہے اور شاید اسی لیے نگہت کے بہت سے افسانوں اور نظموں کے پلاٹ اور کردار ماحول سمیت عمومی حوالے سے تخلیق کردہ نہیں بلکہ حقیقی ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ ان کے کئی افسانوں میں کرداروں کے نام بھی نہیں بدلے۔یوں اس رخ سے نگہت کے ڈاکٹری کے پیشے نے نگہت کے اظہار کی قوت میں اضافہ بھی کیا ہے اور معاونت بھی کی ہے۔ایک بات اوریہ ہے کہ اکثر ڈاکٹر بہت اچھے مصور بھی ہوتے ہیں۔نگہت نسیم برش سے کینوس پر تصویر بیشک نہیں بناتی ہیں لیکن قلم اور لفظوں سے بنائی ان کی تصویریں اس اعتبار سے پختہ رنگوں کی ہیں کہ قاری جلد نگہت کی سحر انگیز تحریروں کو فراموش نہیں کر سکتا۔

نگہت نسیم نے یوں تو اپنی پہلی کہانی آٹھ سال کی عمر میں لکھی تھی جو کہیں شائع تو نہ ہو سکی لیکن نگہت کی کلاس ٹیچر نے انہیں بہت شاباشی دی اور ننھے ہاتھوں سے قلم پر گرفت مظبوط کرنے کی ہدایت دی۔لیکن نگہت نسیم نے 1974میں جب نویں جماعت میں کراچی میٹرو پولیٹن اسکول میں پڑھتی تھیں تو باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔بارہ سال کی عمر میں ”رشتوں کے جال“کے نام سے اپنا پہلا افسانہ لکھاجو ”کرن“ڈائجسٹ میں شائع ہوا اور پہلے ہی افسانے پر تین سو روپیے کاا نعام حاصل کیا۔یہ ایک ایسا حوصلہ تھا جو ابھی تک ساتھ دے رہا ہے۔اس کے بعد مختلف ڈائجسٹ اور ادبی جریدوں کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی رسائل میں ان کی کہانیاں شائع ہوتی رہیں۔نگہت نسیم نے خواتین ڈائجسٹ،شعاع ڈائجسٹ،حنا ڈائجسٹ اور جنگ کراچی میں لکھا،کرن ڈائجسٹ میں تو بہت ہی لکھا،پھر صرف پاکیزہ اور دوشیزہ کی ہو کر رہ گئیں۔اپنے کالج کے زمانے میں نگہت نسیم ادبی سیکشن کی انچارج تھیں اور دوستوں کے ساتھ مل کر ”صدف“بھی نکالا۔اس دوران نگہت کو بڑی بڑی ادبی شخصیات اور شاعروں کو قریب سے دیکھنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا لیکن نگہت اس تواتر اور توازن کو اس وقت برقرار نہ رکھ سکیں جب وہ مکمل طور پر ہاسپٹل کی نذر ہوگئیں۔شب و روز کی مصروفیتوں میں کہانیاں تو لکھتی رہیں لیکن ادارتی ذمہ داریاں نہیں نباہ سکیں۔کہانیوں کا یہ سفر اور آگے بڑھا تو ائمہ کرام کی دعاؤں کو منظوم کرنا شروع کیا۔اب تک نگہت نسیم کی تخلیقات جو کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہیں وہ یہ ہیں

گرد باد حیات(افسانوں کا مجموعہ)2004

مٹی کاسفر(افسانوں کا مجموعہ)2009

سفیدجھیل(نظموں کا مجموعہ)2011

یہی دنیا ہے یہیں کی باتیں (کالمز کا مجموعہ)2011

خاک دان(افسانوں کا مجموعہ) زیر طبع

منظوم دعاؤں کا مجموعہ،زیر طبع

کالمز کا مجموعہ، زیر طبع

نظموں کا مجموعہ، زیر طبع

اہل بیت اظہار کی حیات مبارکہ، زیر طبع

Leave a Reply