You are currently viewing پٹیالہ میں اُردو

پٹیالہ میں اُردو

پٹیالہ میں اُردو

ڈاکٹرمحمد عرفان ملک

مشرقی پنجاب میں اُردو کے حوالے سے پٹیالہ کا ذکر کیا جائے توپنجاب کی قدیم ریاستوں میں سے پٹیالہ ایک ایسی ریاست ہےجس کی عظمتوں کے کئی حوالے ملتے ہیں۔اس ریاست کے زیادہ تر فرما نروا عام طور پر ادب نواز اور اُردو کے دلدادہ رہے ہیں۔ریاست میں نہ صرف بہت سے شعراء و ادباء کی ایک کثیر تعداددربار میں موجود رہتی تھی بلکہ وقتاً فوقتاً انھیں انعامات سے بھی نوازہ جاتا تھا۔بقول عابد علی خاں:۔

’’ریاست پٹیالہ فارسی و اُردو سے کافی گہری وابستگی رکھتی ہے۔مومن کے کلام میں بھی پٹیالہ کے راجہ اجیت سنگھ کا قصیدہ موجود ہے۔ مطبع نول کشور کی بنیاد بھی پٹیالہ میں رکھی گئی تھی بعد میں اسے کانپور منتقل کردیا گیا۔ سیرت النبی پر پہلی کتاب بھی قاضی سلیمان منصور پوری کے ہاتھوں پٹیالہ میں ہی تصنیف ہوئی۔ پٹیالہ کا قیام اُردو ادب کے لئے کافی مفید ثابت ہوا۔‘‘

(اُردو دنیا، جون ۲۰۱۶، ص۴۳)

پٹیالہ میں علم و ادب کے لحاظ سے یہاں کی درسگاہیں علم کو سیراب کررہی ہیں۔یہاں پر  اُردو اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جارہی ہے۔اس شہر میں اُردو کی نسل در نسل کا سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔مسرت کی بات یہ ہے کہ پنجابی یونیورسٹی کا شمار بھی یہاں کے قدیم اور مقبول تعلیمی، تدریسی اداروں میں ہوتا ہے۔پنجاب میں اُردو ادب کتاب میں ڈاکٹر زینت اللہ جاویدؔ لکھتے ہیں:۔

’’اس وقت ملک میں متعدد یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیمی ادارے سرگرمِ عمل ہیں جن کا مقصد دوسرے علوم وفنون کے ساتھ ساتھ مشرقی علوم و السنہ بالخصوص اُردو، فارسی و عربی کی تدریس و تحقیق کا فروغ ہے۔ہمیں فخر ہے کہ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ بھی ان جامعات میں شامل ہے۔‘‘

(پنجاب میں اُردو ادب، ص۵)

یونیورسٹی ایک ایسا ادارہ ہوتاہے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے سارے علوم کی تدریس اور تربیت کی سہولت موجود ہو۔پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کا قیام  ۱۹۶۱؁ کے ایکٹ نمبر ۳۵ کے تحت ۳۰ اپریل  ۱۹۶۲؁ کوشمالی ہندوستان میں عمل میں آیا۔NAAC کی جانب سے FIVE STAR کی حصولیابی فخر کی بات ہے۔بقول ڈاکٹر محمد جمیل:۔

’’پنجابی یونیورسٹی اعلیٰ تعلیم کا واحد ادارہ ہے جو ہبریو یونیورسٹی (اسرائیل) کے بعد زبان کے نام پر قائم کی گئی دوسری یونیورسٹی ہے جس کے پسِ پردہ پنجابی زبان و ادب و تہذیب کو فروغ دینا شامل ہے۔‘‘

(ادب تحقیق،ص۱۵)

پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ میں فیکلٹی آف آرٹس کے تحت زبان و ادب کے نام پر قائم کئے گئے دیگر شعبۂ جات کی طرح شعبۂ فارسی،اُردو اور عربی بھی اپنی فعالیت کے لئے ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔فارسی زبان و ادب کا پنجابی سے گہرا تعلق ہونے کی بنا پر  ۱۹۶۷؁ میں یہ شعبۂ وجود میں آیا۔اس نے  فروغِ اُردو کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ قابلِ ستائش ہیں۔

شعبئہ فارسی،اُردو اور عربی پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ میں پی ایچ۔ڈی(اُردو،فارسی)، ایم اے (اُردو،فارسی)، اُردو،فارسی اور عربی میں ایک سالہ سرٹیفکیٹ کورس،اُردو فارسی ڈپلوما اور پوسٹ گریجویٹ سطح کی تعلیم کے کورسز دستیاب ہیں۔پنجابی یونیورسٹی کے پرائیویٹ نظام ِ تعلیم میں اُردو بطور مضمون بی۔اے اور بی۔ایڈ میں پڑھانے کاخاص انتظام ہے ساتھ ہی،ایم اے اُردو،فارسی بھی پرائیویٹ طور پر کی جاسکتی ہے۔یونیورسٹی  سے سینکڑوں طلباء ایم۔اے کے امتحانات پاس کرنے کے بعد زندگی کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔اِس شعبئہ نے عصری تقاضوں کے تحت معیاری اور تقابلی تعلیم دینے پر خصوصی توجہ دی ہے۔

اُردو والوں کو یہ جان کر مسرت ہوگی کہ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ ایسی پہلی اور منفرد یونیورسٹی ہے کہ جس میں شعبۂ فارسی، اُردو اور عربی اساتذہ کے تعاون سے شعبئہ پنجابی کے بی۔اے آنرز اِن پنجابی اور ایم۔اے آنرز اِن پنجابی طلباء کیلئے بھی تقریباً ۲۰۰۴؁ سے اُردو، فارسی زبان سکھانے کے لئے باقاعدہ ریگولر کلاسیز کا اہتمام کیا گیا ہے۔اس میں زیادہ تر وہ طلباء ہوتے ہیں جن کی مادری زبان پنجابی ہوتی ہے۔ایسی صورتِ حال میں اساتذہ کی یہ کوشش رہتی ہے کہ اُردو، فارسی اور پنجابی کے مابینِ لسانی رشتہ بھی اِستوار کیا جاتا رہے۔

         اس شعبے کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس کے دو حصے ہیں،بنیادی حصہ یونیورسٹی کیمپس پٹیالہ میں ہے اور دوسرا حصہ نواب شیر محمد خاں انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اِن اُردو پرشین اینڈ عریبک مالیرکوٹلہ میں ہے۔ لیکن تحقیق سے متعلق فیصلے دونوں شعبے مل کر ہی لیتے ہیں۔

شعبئہ اُردو ،فارسی نے اُردو و فارسی اور پنجاب کے رشتہ کو برقرار رکھنے کیلئے بھی بھرپور کوششیں کیں ہیں اسلئےشعبئہ میں جو تحقیقی کام ہورہا ہے یا ابھی تک کیا گیا ہے اُس میں بھی زیادہ تر ریسرچ ورک پنجاب کے حوالے سے ہی کروایا جارہا ہے۔بقول ڈاکٹر رحمان اختر:

’’پنجاب کے معتبر شاعروں اور ادیبوں پر ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں تحقیقی و تنقیدی کام ہورہا ہے اور ان کی ادبی خدمات کو کسی نہ کسی طور پر منظرِ عام پر لایا گیا ہے یا لایا جارہا ہے۔‘‘

(ادبِ پنجاب، ص۱۰)

سرِدست شعبہ فارسی،اُردو اور عربی میں اب تک پیش کردہ تحقیقی مقالات کی تعداد (۵۵) ہے۔ جن میں(ایم فل۔۷) اور(۴۸مقالہ جات پی ایچ۔ڈی) کے لیے تحریر کیے جاچکے ہیں اور (۱۳)مزید مقالے تحقیقی کام کیلئے رجسٹرڈ ہیں جن پر ابھی کام چل رہا ہے۔علاوہ ازیں (۰۴) طلباء انرولڈ ہیں۔ ’اکیسویں صدی میں اُردو فروغ اور امکان‘ میں ڈاکٹر ناشر نقویؔ لکھتے ہیں:

’’پنجاب میں اسکولی سطح سے یونیورسٹی سطح تک طلباء کی تعداد میں روز بروز اضافے ہورہے ہیں۔اس اضافے کو صرف پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کی اس مثال سے واضح کیا جاسکتا ہے کہ ۱۹۶۸ سے ۲۰۰۰ تک اسی یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو سے صرف آٹھ لوگوں نے پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی جب کہ ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۳ کے دوران گیارہ اسکالرز کو پی ایچ۔ڈی کی ڈگری مل چکی ہےاور بیس ریسرچ اسکالرز پی ایچ۔ڈی میں رجسٹرڈ ہیں۔اس طرح اکیسویں صدی کے ابتدائی تیرہ برسوں میں اکتیس پی ایچ۔ڈی ایک ہی یونیورسٹی سے ہونا اُردو کے بہترین مستقبل اور وسائل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔‘‘

(اکیسویں صدی میں اُردو فروغ اور امکان،ص۷۷)

شعبئہ فارسی، اُردو اور عربی میں جن موضوعات پر سند ایوارڈ ہوچکی ہے ان کے نام اور تحقیقی کام کے موضوعات کی فہرست درج ذیل ہے۔

ایم۔فل:۔

شمار مقالہ نگار ایم۔فِل کاموضوع نگران ڈگری
۰۱ نذیر حسن غنی کشمیری بحیثیت غزل گو (ایک تنقیدی مطالعہ) سید ذاکر حسین نقوی ۱۹۷۷
۰۲ طارق کفایت اللہ گرامی جالندھری شخصیت اور فن ڈاکٹرشیخ زینت اللہ ۱۹۸۴
۰۳ عبدالرشید سجاد ظہیر کی ناول نگاری’لندن کی ایک رات‘ سید ذاکر حسین نقوی ۱۹۸۶ٍ
۰۴ رحمت اللہ خان جوش ملسیانی: حیات و خدمات سید ذاکر حسین نقوی ۱۹۸۷
۰۵ خالد کفایت اللہ غزلیات نظیرؔ لدھیانوی کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹر شیخ زینت اللہ ۱۹۹۱
۰۶ ایوب خان آزادی کے بعد پنجاب کے اُردو افسانہ نگار ڈاکٹرشیخ زینت اللہ ۱۹۹۲
۰۷ محمد لیاقت منٹو کے شاہکار افسانے: تحقیق و تجزیہ ڈاکٹرشیخ زینت اللہ ۱۹۹۳

پی ایچ۔ڈی:۔

شمار مقالہ نگار پی ایچ۔ڈی کاموضوع نگران ڈگری
۰۱ شیخ زینت اللہ تلوک چند محرومؔ: شخصیت اور شاعری پروفیسر گلونت سنگھ ۱۹۷۹
۰۲ سید ذاکر حسین نقوی انسانی شخصیت کا تصور: مثنوی رومی کی روشنی میں پروفیسر گلونت سنگھ ۱۹۸۱
۰۳ ڈاکٹر شیخ زینت اللہ غزلیات کی بنا پر نظیریؔ کے تخلیقی شعور کا تجزیہ پروفیسر گلونت سنگھ ۱۹۸۳
۰۴ عراق رضا زیدی مثنویات ِفانی کشمیری کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹرشیخ زینت اللہ ۱۹۹۰
۰۵ محمد رفیع شعرائے مالیرکوٹلہ کی ادبی دین ڈاکٹر شیخ زینت اللہ ۱۹۹۰
۰۶ محمد جمیل عبدالحلیم شرر کی غیر تاریخی ناول نگاری امرونت سنگھ ۱۹۹۰
۰۷ اودھ نرائن پاٹھک سدرشن: شخصیت اور فنِ افسانہ ڈاکٹر شیخ زینت اللہ ۱۹۹۰
۰۸ انوار احمد انصاری پنجاب میں طنزو مزاح کا نثری ادب ڈاکٹر شیخ زینت اللہ ۱۹۹۲
۰۹ طارق کفایت اللہ پنجاب کے برگزیدہ فارسی غزل گو ڈاکٹر شیخ زینت اللہ ۱۹۹۳
۱۰ محمد ایوب خان ناصر علی سرہندی، شخصیت اور فنِ غزل گوئی ڈاکٹر شیخ زینت اللہ ۱۹۹۷
۱۱ رحمان اختر اُردو اور پنجابی ناول میں پنجاب کی ثقافتی اور ادبی نمائندگی ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۰۰
۱۲ روبینہ شبنمؔ پروین شاکرکا شعری کارنامہ ڈاکٹر شیخ زینت اللہ ۲۰۰۲
۱۳ شہناز چاندنی دبستانِ داغ اور پنجاب کے شعراء:ایک تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۰۲
۱۴ ندیم احمد پنجاب میں اُردو تنقید نگاری کا ارتقاء ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۰۷
۱۵ محمد سلیم زبیری پنجاب میں اُردو غزل کے پچاس سال (۱۹۵۱ سے ۲۰۰۰ تک) ڈاکٹرشیخ زینت اللہ ۲۰۰۷
۱۶ نازنین گوپال متل کی ادبی خدمات تنقیدی اور تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۰۹
۱۷ شبنم حیات سردار انجم شخصیت اور شاعری: تفہیم و تجزیہ ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۱۰
۱۸ محمد انور بشریٰ اعجاز شخصیت اور ادبی خدمات کا تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر طارق کفایت اللہ ۲۰۱۰
۱۹ محمد شفیق تھند اُردو کی ادبی تحریکات اور پنجاب، تفہیم و تجزیہ ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۱۳
۲۰ انعام الرحمٰن پنجاب میں اُردو ڈرامہ کی روایت: ایک تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۱۳
۲۱ پرویز احمد پالہ ادبیاتِ فارسی میں وادی کشمیر کے غیر مسلم قلمکاروں کا حصہ ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۱۳
۲۲ محمد اسلم مشرقی پنجاب میں اُردو کی ادبی صحافت: ایک تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۱۴
۲۳ محمد اشرف پنجاب میں صوفیانہ اُردو شاعری کا فکری نظام (تحقیقی و تنقیدی مطالعہ) ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۱۴
۲۴ عابدہ رفعت پنجاب میں اُردو مرثیہ: تفہیم و تجزیہ ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۱۵
۲۵ محمد جمیل کنور مہندر سنگھ بیدی سحر:شخصیت اور ادبی خدمات ڈاکٹر روبینہ شبنم/

ڈاکٹر محمد اقبال

۲۰۱۵
۲۶ کہکشاں فلک پنجاب کی خواتین افسانہ نگار:تفہیم و تجزیہ ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۱۶
۲۷ لبنیٰ ہندوستانی پنجاب کے اعزاز یافتہ شعراء: حیات و خدمات ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۱۶
۲۸ محمد سلیمان حجام جموں کشمیر میں اُردو ناول کا تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۱۷
۲۹ نسیم اختر آزادی کے بعد اُردو کی پنجابی شاعرات کا تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر روبینہ شبنم ۲۰۱۷
۳۰ مہر النساء فیض احمد فیضؔ:ایک صدی پر محیط شاعر(افہام و تفہیم) ڈاکٹر روبینہ شبنم ۲۰۱۷
۳۱ نازیہ کوثر پنجاب میں اُردو خود نوشت نگاری: تاریخی و فنی مطالعہ ڈاکٹر رحمان اختر ۲۰۱۸
۳۲ مہناز کوثر اُردو میں مطبوعہ مکتوب نگاری فن اور روایت:ادبی اور تاریخی مطالعہ ڈاکٹر رحمان اختر ۲۰۱۸
۳۳ عمرانہ خاتون اُردو رباعی اور انسانی اقدار: تنقید و تجزیہ ڈاکٹر روبینہ شبنم ۲۰۱۸
۳۴ جتندر پال اُردو کی جدید شعری اصناف کا تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۱۸
۳۵ عابد علی خان اُردو نثر نگاری میں مالیرکوٹلہ کی خدمات ڈاکٹر روبینہ شبنم ۲۰۱۸
۳۶ مدثر رشید جموں و کشمیر میں اُردو افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۱۸
۳۷ شوکت احمد ملک آزادی کے بعد اُردو نثر میں طنزو مزاح ڈاکٹر روبینہ شبنم ۲۰۱۸
۳۸ روحی سلطان اُردو میں کربلائی نثر کے اہم شہ پاروں کا تنقیدی مطالعہ ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۱۸
۳۹ محمد امین نجار اُردو میں سکھ نثر نگاروں کی ادبی خدمات: ایک مطالعہ ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۱۸
۴۰ تبسم بانوشاہ اُردو میں پنجابی سے در آمد ناولوں کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۱۸
۴۱ وحید احمد ڈار مشرقی پنجاب میں اُردو سفرنامہ نگاری: تاریخی و تنقیدی مطالعہ ڈاکٹررحمان اختر ۲۰۱۹
۴۲ غلام رسول بھٹ مشرقی پنجاب میں اُردو نظم ۱۹۴۷ کے بعد:افہام و تفہیم ڈاکٹررحمان اختر ۲۰۱۹
۴۳ سعید حسین عباس بابا گورو نانک سے اُردو شعراء کی عقیدت:تسلیم و تفہیم ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۱۹
۴۴ شمش الحسن احمد رضا خان کی صوفیانہ نثری تصنیفات کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹررحمان اختر ۲۰۱۹
۴۵ امتیاز احمد الائی جموں و کشمیر میں اُردو کی ادبی صحافت کا جائزہ ڈاکٹر روبینہ شبنم ۲۰۱۹
۴۶ محمد عرفان مشرقی پنجاب میں اُردو زبان و ادب کی تعلیم کا اجمالی جائزہ ڈاکٹر محمد جمیل ۲۰۱۹
۴۷ برکت علی اُردو نظم میں منظر نگاری تحقیقی اور تنقیدی جائزہ ڈاکٹر ناشر نقوی ۲۰۱۹
۴۸ عابد ابراہیم پارا پنجاب میں اہم فارسی رباعی گو شعراء:ایک تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر زین العباء ۲۰۲۰

مندرجہ بالا مقالہ نگاروں  کی لمبی فہرست سے یہ بات صاف صاف واضح ہوجاتی ہے کہ شعبۂ فارسی، اُردو اور عربی کی جانب سے کروایا گیا ریسرچ ورک ہر لحاظ سے معیاری ہے۔ شعبۂ میں تحقیق کا سفر اب بھی اپنے پورے کروفر کے ساتھ جاری و ساری ہے۔بقول خالد کفایت:۔

’’ہر چند کہ پنجاب کی تقریباً سبھی یونیوسٹیوں کے اُردو، فارسی شعبوں میں تحقیقی کام ہوا ہے مگر بلاشبہ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کو درجہ فوقیت حاصل ہے۔اس کی وجہ  شہرِ اُردو مالیرکوٹلہ کا اس یونیورسٹی کے دائرہ کار میں ہونا ہے۔‘‘

(پروازِ ادب، ستمبر تا اکتوبر ۲۰۰۶، ص۸۴)

شعبئہ میں جن نئے موضوعات پر تحقیق کا کام جاری ہے ان کے نام اور تحقیقی کام کے عنوانات کی فہرست درج ذیل ہے۔

پی ایچ۔ڈی(رجسٹرڈ):۔

شمار مقالہ نگار پی ایچ۔ڈی کا موضوع نگران
۰۱ منظور احمد ملاح اُردو کے مطبوعہ انٹرویوز کا ادبی مطالعہ ڈاکٹر محمد جمیل
۰۲ محمد سالک جمیل مشرقی پنجاب میں ادبِ اطفال کی روایت تحقیقی و تنقیدی جائزہ ڈاکٹر محمد جمیل
۰۳ محمد حنیف ۱۹۸۰ کے بعد مشرقی پنجاب کے اہم افسانہ نگار:ایک تنقیدی جائزہ ڈاکٹر محمد جمیل
۰۴ اقبال احمد مشرقی پنجاب میں اُردو کی ادبی تحقیق: ایک مطالعہ ڈاکٹر محمد جمیل
۰۵ محمد فاروق قادری ۱۹۸۰ کے بعد ہندوستان کے مشاہیر افسانچہ نگار: تفہیم و تجزیہ ڈاکٹر محمد جمیل
۰۶ محمد الطاف ملک کرپال سنگھ بیدار کی شاعری کا اہم معاصرین کے ساتھ تقابلی مطالعہ ڈاکٹر محمد جمیل
۰۷ سمیرا خانم ہریانہ کے اہم شعراء کی شعری خدمات کا تنقیدی جائزہ ڈاکٹررحمان اختر
۰۸ طارق احمد جدید اُردو نثر کی میعمار کتب کا تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر روبینہ شبنم
۰۹ جگموہن سنگھ وحشی سعید:حیات اور تخلیقات کا معاصرین کے ساتھ تقابلی جائزہ ڈاکٹر روبینہ شبنم
۱۰ گلاب سنگھ تقسیمِ ہند کے حوالے سے اُردو کے نمائندہ فکشن نگاروں کا تقابلی مطالعہ ڈاکٹر روبینہ شبنم
۱۱ شاہوید میر اُردو میں سیرت نگاری کا مطالعہ ادب کےآئینے میں ڈاکٹر روبینہ شبنم
۱۲ شمیم اختر صادقہ نواب سحر اور دلیپ کور ٹیوانہ کی فکشن نگاری کا تقابلی مطالعہ ڈاکٹر روبینہ شبنم
۱۳ رخسانہ در عہد مغول اخلاقی عنصر در ادبیاتِ فارسی: در ہند و ایران ڈاکٹر زین العباء

        پی ایچ۔ڈی(انرولڈ):۔

شمار مقالہ نگار پی ایچ۔ڈی انرولڈ نگران
۰۱ محمد عرفان گنائی انرولڈ ڈاکٹررحمان اختر
۰۲ زرینہ انرولڈ ڈاکٹر روبینہ شبنم
۰۳ شبیر احمد انرولڈ ڈاکٹررحمان اختر
۰۴ طالب احمد انرولڈ ڈاکٹررحمان اختر

مزید برآں مندرجہ والانے اس سمت میں کافی سفر طے کر لیا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ جلد از جلد وہ اپنی منزل مقصود پالیں گے۔

اکیسویں صدی میں فروغِ اُردو کیلئے ۱۹۶۹؁ سے قائم شدہ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے کیمپس میں واقع سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز کا شمالی علاقائی لسانی مرکز بھی اُردو کی تعلیم کے لیے عمل پیرا ہے۔اس میں پنجابی، کشمیری، ڈوگری  زبانوں کے ساتھ ساتھ اُردو ڈپلوما  کروایا جارہا ہے۔مجموعی طور پر سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انڈین لینگویجز تیرہ ہندوستانی زبانوں کی تعلیم دیتا ہے۔جس سے ہزاروں طلبہ و اساتذہ فیض پاتے ہیں۔یہ مراکز اُردو اساتذہ کی پیشہ ورانہ لیاقت بڑھانے کے لئے مختلف طرح کی تربیت کا اہتمام بھی کرتا ہے۔

اس کے علاوہ گاہے بگاہے اس ادارے کی جانب سےاُردو اساتذہ کے لئے اسباق کی تیاری، اُردو ورکشاپ، ریفریشرکورس،اورینٹل کورس اور سیمیناروں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔تاکہ اُردو تدریس کے مسائل کے بارے میں اساتذہ کے شعور اور تازگی میں اضافہ ہوتا رہے۔اس کے علاوہ لکھنؤ اور سولن میں بھی  اُردو ٹیچنگ اینڈ ریسرچ سینٹر قائم ہیں۔جہاں اُردو کی تعلیم کا  خاص انتظام ہے۔ان تعلیمی مراکز میں اُردو زبان و ادب کے ماہرین اور لائق اساتذہ کی زیر نگرانی ٹریننگ کا بھی انتظام کیا  جا رہا ہے۔ان ٹریننگ سینٹروں کے ذریعے اب تک تقریباً ہزاروں اساتذہ تربیت حاصل کرچکے ہیں۔یہ تربیت یافتہ اساتذہ پنجاب کے مختلف سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں طلباء  کو بنیادی سطح پر اُردو زبان سے روشناس کر رہے ہیں۔

پنجاب کے ہر ضلع میں اُردو کی ترویج و ترقی کے لیے کام کرنے والے مراکز ادبی گلدستوں میں اپنی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔ان میں پنجاب سرکار کی سرپرستی میں کام کرنے والا مرکز بھاشا وبھاگ پنجاب کی اُردو خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔بھاشا وبھاگ پنجاب بھی سنسکرت،ہندی اور پنجابی کے ساتھ ساتھ اُردو زبان و ادب کے فروغ کیلئے کام کرنے والا شمالی ہند کا ایک اہم ادارہ ہے۔

بھاشا وبھاگ کی جانب سےفروغِ اُردو کیلئے ۱۹۷۵؁ میں ایک نئے سیکشن کا افتتاح ہوا۔اس سیکشن نے نوجوان نسل میں اُردو زبان کو سیکھنے کی شدید خواہش کو محسوس کرتے ہوئے پنجاب کے چار اضلاع لدھیانہ،جالندھر،فیروزپور اور پٹیالہ میں اُردو کے تعلیمی مراکز شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔لوگوں نے اس کا پرجوش خیر مقدم کیا۔نوجوانوں کے علاوہ بڑی عمر کے لوگ بھی جوتقسیمِ ملک کے ہنگامہ خیزی کا شکار ہونے کے سبب اُردو کی تعلیم سے محروم اور تشنگی محسوس کررہے تھے ان مراکزمیں داخل ہوکر اُردو کی تعلیم حاصل کرنے میں پیش پیش ہیں۔بھاشا وبھاگ کے بارے میں عابد علی خاں لکھتے ہیں کہ:۔

’’بھاشا وبھاگ کا اہم کارنامہ پٹیالہ اور پنجاب کے دیگر اضلاع میں اُردو کی مفت تعلیم کے مراکز قائم کرنا ہے۔ جہاں چھ ماہ کا اُردو کورس کروانے کے علاوہ طلباء کو سرٹیفکیٹ بھی دیا جاتا ہے۔ اس اسکیم کی بدولت اُردو زبان سے محبت رکھنے والے بہت سے افراد جو اُردو رسم الخط سے بے بہرہ تھے دھیرے دھیرے بہرہ مند ہوتے نظر آرہے ہیں۔‘‘

(اُردو دنیا، جون ۲۰۱۶، ص۔۴۴)

بھاشا وبھاگ کے ان چار مراکز کا کھلنا نیک فال ثابت ہوا۔ پنجاب کے مختلف شہروں اور قصبوں سے بھی اُردو سیکھنے کیلئے مراکز کا مطالبہ شروع ہوا۔آخر فیصلہ ہوا کہ ضلع صدر مقامات اور صوبائی دارالسلطنت چنڈیگڑھ میں اُردو کی مفت تعلیم کے یہ مراکز قائم کیے جائیں۔ ۱۹۷۶؁ کی پہلی صبح کو ایک آدھ ضلع کو چھوڑ کر صوبہ کے تمام ضلع صدر مقامات پر مراکز  کا انعقاد  کیا گیاتھا۔جو ہر ضلع میں ’’ضلع بھاشا مرکز‘‘ کے نام سے ششماہی کورس ’’اُردو آموز‘‘ جنوری سے جون اور جولائی سے دسمبر کے دوران ہر روز شام کو اُردو کی تعلیم دی  جانےلگی۔جس میں تقریباً دو سو طلباء سالانہ اُردو سیکھنے کیلئے داخلہ لیتے ہیں۔ ہر چھ ماہ بعد ضلع بھاشا افسر کی طرف سے اخباروں میں اُردو سیکھنے کے لیے اشتہار دیا جاتا ہے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ اُردو زبان کی طرف گامزن ہوسکیں۔

بھاشا وبھاگ پنجاب اُردو زبان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُردو قلمکاروں کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کے لیے بھی متعدد اقدامات کر رہا ہے۔بھاشا وبھاگ پنجاب کی طرف سے ہر سال تین اُردو مصنفین کو کتابوں کی اشاعت کے لیے مالی تعاون دیا جاتا ہے۔ساتھ ہی ہر سال مشرقی پنجاب میں شائع ہونے والی اُردو کی بہترین ادبی کتب پر راجندر سنگھ بیدی پرسکار،ساحر لدھیانوی پرسکار،حافظ محمود شیرانی پرسکار اور کنہیا لال کپور پرسکار، اکیس ہزار روپے اور ایک کتاب کو اعلیٰ طباعت کے لئے گیارہ ہزار روپے کا خصوصی انعام  دیا جاتا ہے۔ اب تک تقریباً ایک سو تیس  کتب کو یہ انعام دیئے جا چکے ہیں۔غیر مطبوعہ کتب کی اشاعت کے لئے محکمہ کی طرف سے اہلِ قلم کو مالی امداد دی جاتی ہے۔اس اعانت کے تحت اب تک ۱۲۰ کے قریب کتب شائع ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال پنجاب سے تعلق رکھنے والے ضعیف،نادار اور حاجت مند ادیبوں کی مالی معاونت اور پنشن کے لئے رقوم مخصوص کی جاتی ہے۔ پنشن کے طور پر ایک ادیب کو ۵۰۰۰ روپے ماہانہ، مالی امداد کے طور پر ۲۵۰۰ روپے ماہانہ دیئے جاتے ہیں۔اب تک تقریباً ۴۵ ضرورت مند افراد کو پنشن اور ۴۲ کے قریب لوگوں کی مالی امداد کی جاچکی ہے۔تادم تحریر محکمہ سے پانچ ادباء پنشن اور تین ادباء مالی امداد حاصل کر رہے ہیں۔

بھاشا وبھاگ پنجاب  ہر سال مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے یا یہاں پر دس سال سے آباد سینئر و ممتاز ادباء کو لائف ٹائم اچیومنٹ کے طور پر شرومنی ساہت کار ایوارڈ  ایک لاکھ روپے نقد،طلائی تمغہ اور شال پر مشتمل تیرہ انعامات سے سرفراز کرنا اس کے منصوبوں میں شامل ہے۔تاحال پینتالیس ادباء یہ اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ ادبی سیمینار،مشاعرے اور قوالی جیسے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں۔

بھاشاوبھاگ پنجاب کی جانب سے پچھلے ۳۹ سال سے مسلسل اُردو زبان و ادب کی ترویج وترقی کے لئے ماہنامہ اُردو ’’پروازِادب‘‘ بھی باقاعدہ کامیابی سے شائع ہورہا ہے۔یہ رسالہ نہ صرف پنجاب بلکہ پوری اُردو دنیا میں اپنی شناخت قائم کرچکا ہے۔ادارہ اس کام کے لئے مبارکباد کا مستحق ہے کہ جس نے پنجاب میں چراغِ اُردو کو مزید تقویت بخشی ہے۔

اسکولوں کی بات کی جائے تو دور دراز دیہی علاقے میں اپریل  ۱۹۹۰؁ سے قائم شدہ اسلامیہ پرائمری اسکول لاچھڑو کلاں تحصیل راجپورہ ضلع پٹیالہ بھی اُردو کے لئے اہم خدمات انجام دے رہا ہے۔یہ تعلیم کی بنیادی درسگاہ پنجاب وقف بورڈ کے زیر انتظام چل رہی ہے۔  جو  لوگوں کی تعلیمی ضرورت کی تکمیل کر رہی ہے۔ اس مرکز میں اپریل  ۱۹۹۰؁ سے ہی اُردو کو دوسری زبان کے طور پر پڑھایا جارہا ہے۔

بابا فرید اسلامیہ پبلک ہائی اسکول پٹیالہ یکم نومبر  ۱۹۹۹؁ سے پنجاب وقف بورڈ کے زیر انتظام چلنے والا پٹیالہ کے تاریخی شہر کا اہم تعلیمی ادارہ ہے۔ یہاں تمام مذاہب کے طلباء ذریعۂ تعلیم پنجابی سے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اختیاری مضمون کے طور پر اُردو کی تعلیم دینے میں یہ اسکول  کافی ناموری حاصل کرچکا ہے۔نصاب میں پنجاب اسکول ایجوکیشن بورڈ کے مطابق این۔سی۔ای۔آر۔ٹی کی کتابیں پڑھائی جارہی ہیں۔جس سے امید کی جارہی ہے کہ طلباء کے اُردو میعار میں اور اضافہ ہوتارہے گا۔

پٹیالہ میں ہی اُردو تعلیم کے سلسلہ میں ۲۰۱۳؁ سے پبلک کالج سمانہ اور ۲۰۱۴؁ سے خالصہ کالج پٹیالہ کا نام بھی فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ان مراکز کی جانب سے بھی ڈپلوما اُردو کا اہتمام کیا گیا ہے اور اس میں نوکری پیشہ لوگوں کا خاص خیال رکھتے ہوئے  شام کو کلاسیں لگائی جاتی ہیں۔جن میں ایک اچھی خاصی تعداد اُردو زبان سے فیضیاب ہورہی ہے۔

مجموعی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ پٹیالہ کے اُردو مراکز نے اُردو زبان و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ اس کی ادبی و ثقافتی روایتوں کی بھی پاسداری غیر جانبداری سے کی ہے اور اُردو زبان کی بحالی میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔

Dr. Mohammad Irfan Malik S/O Mohammad Iqbal,

Mohalla Kacha-Kot, (Iqbal Manzil) House No. 188, Ward No. 24, Inside Dehli Gate, Malerkotla, Distt. Sangrur (148023), Mob (98149-60259)(77078-23259) Irfanmalik941@gmail.com

Leave a Reply