You are currently viewing ناصر ناکاگاوا

ناصر ناکاگاوا

خواجہ محمد اکرام الدین 

ناصر ناکاگاوا اور اردو نیٹ جاپان

اردو نیٹ جاپان،ملٹی میڈیا  آن لائن اخبار ہے اس کے گرافکس بہترین ہوتے ہیں، رپورٹنگ بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔ جو جاپان سے مستقل آن لائن اخبار ہے اور مسلسل کئی برسوں سے نکل رہا ہےاس کے مدیر اعلیٰ ناصر ناکاگاوا ہیں  جو گلوبل کمپنی کے مالک ہیں ۔پیشے کے اعتبار سے وہ اردو سے منسلک نہیں ہیں  بلکہ اپنی تہذیبی اور لسانی ذوق و شوق کے سبب اردو سے محبت کرتے ہیں اور اردو کے فروغ  کے لیے کام کرتے ہیں ۔صحافت کے علاوہ  وہ چار کتابوں کے مصنف بھی ہیں ۔ سفر نامے ، افسانے اور طنزو مزاح  ان کا خاص میدان  ہے ۔جاپان میں بڑی  تعداد میں لوگ اردو تہذیب و زبان سے وابستہ ہیں۔بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کو متحد کرنے میں، ان تمام لوگوں کو جمع کرنے میں اردو نیٹ جاپان نے بڑا کام کیا۔ میں نے اردو نیٹ جاپان کے چیف ایڈیٹر سے انٹر ویو بھی کیا اور ان سے کئی سوالات کیے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ آپ جاپان میں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ کی شہریت بھی جاپان کی ہے اور آپ جاپانی زبان بھی جانتے ہیں۔آپ کی فیملی بھی جاپان کی ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ کیسے آیا کہ اردو نیٹ جاپان سے نکالا جائے تو انھوں نے بتایا کہ یہ دراصل جاپان میں جو غیر مقیم پاکستانی اور غیر مقیم ہندوستانی ہیں ان کے لیے اس کی اشد ضرورت تھی کہ مقامی خبروں کو ان کی زبان میں پیش کیا جائے ۔ انھوں نے بتایا کہ جب یہاں جاپان میں لوگ بڑی تعداد میں ہندوستان اور پاکستان سے آئے، جو اردو اور انگلش زبان جانتے تھے، جاپانی زبان نہیں جانتے تھے توان کے لیے ضرورت یہ تھی کہ جاپان کے حوالہ سے،جاپان میں کیا ہو رہا ہے اور ان کے لیے جاپان میں کیا مواقع ہیں اور جاپان سے وابستہ تمام معلومات کو لے کر بڑی کمی تھی ۔تب میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ کوئی آن لائن ایسا بلاگ شروع کیا جائے جس سے ہم ان لوگوں کو تمام انفارمیشن دے سکیں۔انھوں نے مجھے بتایا کہ میرا ارادہ یہ تھا کہ ہم بلاگ شروع کریں گے لیکن جب میں نے احباب سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا کہ نہیں آپ آن لائن اخبار شروع کریں۔لہٰذا میں نے اس آن لائن اخبار کو نکالنا شروع کیا۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان سے آنے والوں کی تعداد بہت بڑی تھی، ان میں سے کچھ طبقہ ایسا تھا جو انگریزی بھی جانتا تھا ، اردو بھی جانتا تھا اور ایک طبقہ ایسا تھاجو صرف اردو جانتا تھا۔اب ان کے لیے یہاں زبان کی بہت پریشانی تھی۔ اب جو لوگ بھی پاکستان یا ہندوستان سے آئے تھے، وہ ہرروز اپنے ملک کی خبر یں جاننا چاہتے ہیں، اپنے علاقہ کی خبر یں جاننا چاہتے ہیں۔ تو کوئی نہ کوئی آن لائن اخبار یہ لوگ ضرور پڑھتے تھے۔اسی کو لے کر ان قارئین نے ان سے یہ تقاضہ کیا کہ جب آپ ایسا اراد ہ کر رہے ہیں تو کیوں نہ ایسا کریں کہ کوئی آن لائن اخبار نکالیںتاکہ ہم اپنی ملکی خبروں سے بھی باخبر رہ پائیں گے اور جاپان کے حوالہ سے جو یہاں کی مقامی خبریں ہیں وہ آپ کے اخبار کے ذریعہ ہمیں مل جائیں گی۔ اردو نیٹ جاپان کو نکلتے ہوئے دو ڈھائی برس ہوئے ہوں گے، اور اس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ پورے جاپان میں تو پڑھا ہی جاتا ہے، بلکہ اسے تقریباً50ممالک میں بھی پڑھا جاتا ہے اورجاپان میں تو اس انداز سے پڑھا جاتا ہے کہ صبح اٹھتے ہی لوگ اس اخبار کو پڑھتے ہیںاور پڑھتے ہی نہیں بلکہ کوئی چیز اچھی لگتی ہے، کوئی خبر پسند آتی ہے تو فون کر کے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ نے فلاں خبر پڑھی ہے یا نہیں اور خبروں پر گفتگوکرتے ہیں۔ جاپان کو ہی لے لیجئے، وہاں ہم نے دیکھا کہ وہاں 47 پریفیکچرس ہیں، دراصل یہ صوبے ہیں لیکن ان 47صوبوں میں سے پانچ سات صوبے ایسے ہیں جہاں پاکستان اور ہندوستان سے جانے والے لوگ زیادہ ہیں۔ اور ان چار پانچ صوبوں میں ان کی آبادی تقریباً 15-20 ہزار ہے۔لوگ بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے جو آبادی تھی وہ تقریباً ایک لاکھ کی تھی جن میں 15-20 ہزار وہ ہیں جو وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔اچھا جب بھی آپس میں ان کو کوئی تبادلہ خیال کرنا ہوتا ہے یا کوئی رابطہ کرنا ہوتا ہے تو یہ اردو نیٹ جاپان کو وہ خبریں بھیجتے ہیں یا کوئی انفارمیشن بھیجتے ہیں اور اس کو پابندی سے پڑھتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہم نے دیکھا کہ اردو نیٹ اخبار نے ایک بڑا کام کیا کہ لوگوں کو متحد کیا اور گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی پروگرام ہوتا رہتا ہے ۔ چونکہ جب یہ آپس میں ملتے جلتے ہیں تو اردو زبان میں گفتگو کرتے ہیں باقی جب وہ جاتے ہیں تو بیشتر حضرات وہ ہیں جنھوں نے وہاں کی زبانیں سیکھ لیں اور یہ ان کی ضرورت کی زبانیں ہیں جسے وہ صرف ضرورت کے تحت استعمال کرتے ہیں ۔ بہت سے حضرات ایسے بھی ہیں جنھوں نے وہاں شادیاں کر لی ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا جب آپ نے یہاں شادیاں کر لی ہیں تو آپ تو بہت ہی تہذیبی کشمکش سے گزر رہے ہوں گے ۔تو انھوں نے یہ بتایا کہ ہم نے شادیاں ضرور کی ہیں، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اردو پڑھیں، اردو سیکھیں تاکہ وہ اپنی تہذیب سے بیگانہ نہ رہیں۔اگر ہم نے ان کو اپنی تہذیب نہ سکھائی، اردو نہ سکھائی تویہ تو جاپانی ہو جائیں گے۔تو میں نے دیکھا کہ وہاں بہت سارے اسکول کھلے ہوئے ہیں، سینٹر کھلے ہوئے ہیں، جہاں ان لوگوں نے بچوں کی اردو تعلیم کا انتظام کر رکھا ہے۔  

***

Leave a Reply