You are currently viewing مایا حیدر

مایا حیدر

مایا حیدر، جرمنی 

وہ بنا پھرتا ہے جس منہ سے دعوے دار میرا
شبہ ہے جس کو کہ مشکوک ہے کردار میرا
پلٹ کے جس نے دیکھا کہ مجھ پہ کیا بیتی
کس لیے کہتا پھرے ہے؟ کہ ہے غم خوار میرا
وہ کسی زلف سے کھیلے ، کسی کا ہو جائے
اس پہ بنتا نہیں ہے کوئی اختیار میرا
وہ رکھ کے بھول گیا گھر میں مجھے شے کی طرح
مان لوں کیسے کہ اب ہوگا طلب گار میرا
دیکھتے دیکھتے رستے کو ہوگئی شامیں
جانے دیتا نہیں گھر کو ، یہ انتظا ر میرا
یہ رت جگے ، یہ آہیں بے اثر نہ جائیں گی
وہ پلٹ آئے گا اک دن قصوروار میرا
مان لوں کیسے کہ غافل رہے گا وہ مجھ سے
اتنا کمزور نہیں رب پہ اعتبار میرا
یہ اور بات مقدر کڑا رہا مایا
بے اصولوں میں کبھی ہوگا نہ شمار میرا 

Leave a Reply