ڈاکٹر مہوش نور
اصل نام: قیصر تمکین
قلمی نام : قیصر تمکین
پیدائش: 1 جنوری1938کو لکھنؤ
وفات: 25نومبر2009
افسانہ نویس،ناقد،صحافی اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک قیصر تمکین ایک جنوری1938کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔قیصر تمکین ایک باعلم گھرانے کے چشم و چراغ تھے اور ان کے جد امجد محسن کاکوروی تھے۔امیر احمد علوی جن کو دنیا ادیب،مصنف اور دانشور کی حیثیت سے جانتی ہے قیصر کے داد اتھے۔شام اودھ ،امیر خسرو ؔ پر تحقیق،سنہرا حلقہ،ہندو ادیب ان ساری تصنیفات کے مصنف قیصر تمکین کے والد مشیر علوی ناظر کاکوروی تھے۔ناظر کاکوروی ایک درویش صفت انسان تھے۔انسانیت کی اعلیٰ اقدار کی تاریخ گواہ ہے کہ فقیری نے بادشاہی حکومت کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا اور بادشاہی حکومت خود کو فقیری کے سامنے خالی ہاتھ محسوس کرتی رہی اور اپنی اس کمزوری کو حقارت کے پردوں میں چھپاتی رہی اور ایسا سلوک قیصر کے والد کے ساتھ بھی کیا گیا۔
درویش صفت انسان تو اس سلوک کو برداشت کر گیے لیکن ان کی اولاد کے سینے میں جو زخم پلنے شروع ہوئے وہ زخم آج بھی ہرے ہیں۔ان کا یہ زخم ان کی کتاب”خبر گیر” میں بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔”خبر گیر”کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے جس میں ان کے اندر جنم لینے والا لاواپکتا ہوا نظر آتا ہے:
”جس حقارت سے والد کا ذکر آتا ہے اور ہمارے نانہال کے سب بوڑھے،بچے،والد کو جاہل،نالائق،احمق،خبطی سمجھتے تھے اس کا رد عمل مجھ پر یہ ہوا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ مفلسی کے گڑھے سے نکلنے کی کوشش کبھی ترک نہیں کروں گا۔بار بار عزم کیا اور بار بار ناکام ہوا۔”
قیصر تمکین کے افسانوں کا پہلا مجموعہ”جگ ہنسائی”1958 میں منظر عام پر آیا۔اس افسانے میں جگ ہنسائی سے زیادہ خود کو ہنسی کا موضوع بنایا گیا ہے جو ننگی تلوار پر چلنے کے برابر ہے۔ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ”خبر گیر”1987 میں شائع ہوا۔یہ آپ بیتی کی تکنیک میں لکھا گیا افسانہ ہے۔آپ بیتی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ جگ بیتی بھی ہے۔
تیسرا افسانوی مجموعہ”سواستکا”1988 ،”اللہ کے بندے”1990 میں شائع ہوا۔”اللہ کے بندے” مجموعے کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ قیصر نے کھلی آنکھوں سے جو کچھ بھی دیکھا تھا اسے من و عن ”اللہ کے بندے” میں بیان کر دیا ہے۔ان کے افسانوں کا چوتھا مجموعہ ”یروشلم یروشلم” کو انسٹی آف تھرڈورلڈ آرٹ اینڈ لٹریچر،لندن نے1993 میں شائع کیا۔اس کتاب کا ”چوتھا لائٹ ہاؤس” (پیش لفظ)دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ معلومات انگیز بھی ہے۔اس کے بعد 1997 میں ”او یاسمین”مجموعہ شائع ہوا۔اس مجموعے کے نام کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کسی یاسمین کو مخاطب کیا جا رہا ہے مگر سچ یہ ہے کہ ”او یاسمین”جاپانی زبان کا لفظ ہے۔جس کے معانی ہیں”وداع آخر” اور تمکین صاحب نے اسی معانی کو دھیان میں رکھ کر اپنی کتاب کا نام رکھا ہے۔اس افسانوی مجموعے کے بعد قیصر کے دو اور افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے جن میں ”ایک کہانی”،”گنگا جمنی”قابل ذکر ہیں۔
افسانوں کے علاوہ قیصر کی تنقید پر مشتمل کتابوں میں ”شعرو نظر”بھی اہمیت کی حامل ہے اور مغرب میں اردو تنقید میں ان کا نام بھی نمایاں ہے۔برطانیہ سے شائع ہونے والی اردو کتابوں پر دیباچے اور تبصرے بھی قیصر صاحب لکھتے رہے ہیں۔ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ”شعرو نظر”1997میں شائع ہوا۔اس کے علاوہ قیصر تمکین کو صحافت کے میدان میں بھی منفردمقام حاصل ہے۔انہوں نے”ساؤتھ ویلزآرگس”،”آواز” وغیرہ اخبار ایجنسیوں میں صحافت کاکام انجام دیا۔