سرور غزالی ،برلن جرمنی
راہ طلب میں چلے جو خاکسار ہوگئے
بچ کے جو نکل گئے بے اعتبار ہوگئے
ہنس رہے تھے شام و سحر یار سب
جب سے ترا غم ملا وہ غمگسار ہو گئے
کون سی خبر تھی جو سناگئی صبا کہ بس
گلستاں لرز گیا گل اشکبار ہو گئے
حسن کی کچھ نہیں خطا قصور ہے نظر کا سب
مل گئی تھی نظر اور نثار ہو گئے
دے رہے ہیں کیوں سرور یار ہمیں اب صدا
ہم تو یوں بکھرگئے کہ اب غبار ہو گئے