عشرت معین سیما کی غزلیں
محبت اپنی عادت ہو گئی تھی یہ عادت اک ضرورت ہوگئی تھی
ضرورت بن گئی اغراضِ ہجرت تو دوری بھی عبادت ہو گئی تھی
یہی تھا اک سبب اس بے گھری کا مجھے تم سے محبت ہوگئی تھی
تمہیں پا کر ہی ہم نے خود کو کھویا ہمیں مرنے کی عادت ہوگئی تھی
بجھائے بے سبب جلتے دیئے پھر ہوا کو جب عداوت ہوگئی تھی
زبانِ زد ہے جو قصہ ء اُلفت وہی دل کی حکایت ہوگئی تھی
ترے ہاتھوں میں سیما اک قلم تھا
تجھے رب کی عنایت ہو گئی تھی
خواب دے کے، آنکھوں سے نیند ہی چرالی ہے دل میں بسنے والوں کی یہ ادا نرالی ہے
کھنکھنا کے کرتے ہیں اس کا وہ سواگت یوں ہاتھ کے جو کنگن ہیں ، کان میں جو بالی ہے
پھول رنگ اور خوشبو راستے میں بکھرے ہیں منتظر چراغوں کی در پہ ایک تھالی ہے
کچھ ستارے آنکھوں میں میری ،جلتے رہتے ہیں پیار کی کمند اُس نے جب سے دل پہ ڈالی ہے
فرقتوں کا ہر لمحہ شاد ہے ترے دم سے تیرے سنگ یہ جیون ، عید ہے دیوالی ہے
وصل کی تمنا میں روز و شب گزرتے ہیں دل یہ میرا بے کل ہے ،آنکھ بھی سوالی ہے
شوق تھا تمہارا بھی زندگی امر کرنا اک تمنا ایسی ہی ہم نے دل میں پالی ہے
یوں رکھا بھرم اُس نے میری اس محبت کا
سیما بات بگڑی جب اُس نے ہی سنبھالی ہے
( عشرت معین سیما)