زاہدہ زیدی کے رموز فکر و فن کا تجزیاتی مطالعہ
محمد شہنواز عالم
شعبۂ اردو، اچاریہ جگدیش چندر بوس کالج، کولکاتا۔ ۲۰
زاہدہ زیدی ایک تہ دار اور بے مثال فن کار کی حیثیت سے انگریزی و اردو ادب کے اُفق پر جلوہ گر رہی ہیں، جو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ انہیں بیک وقت کئی اصناف پر قدرت حاصل تھی۔ وہ ایک اچھی شاعرہ، ڈراما نگار، مترجم، ناول نگار اور ساتھ ہی ساتھ تنقید نگار بھی تھیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تنقید نگاری ان کا پیشہ نہیں تھی بلکہ وہ ایک تربیت یافتہ تنقید نگار تھیں لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے جو تنقیدی مضامین لکھے ہیں، وہ قابل ذکر اور قابل غور ہیں۔ انہوں نے اپنے تنقیدی مضامین کے لئے اہم کلاسیکی اور جدید شعرا اور دوسرے اہم تخلیقی فن کاروںکے چنندہ فن پاروں کو اپنا موضوع بنایا۔گو یہ کہ انہوں نے انہی موضوعات کو اپنے اظہار خیالات کے لئے منتخب کیا جس پر وہ کچھ نئی باتیں کرسکتی تھیں۔ یوں تو ہم ان کی تنقیدی بصیرت کو ان کے شعر ی مجموعوں اور ڈراموں کے مجموعوں میںبھی تلاش کرسکتے ہیںلیکن بہتر یہ ہوگا کہ اُن کے تنقیدی رویے کے بارے میں انہی کی رائے ملاحظہ کرلی جائے:
’’ میرے تخلیقی تجربات ہی نے مجھے دوسرے تخلیق کاروں کے کارناموں کو سمجھنے میں مدد کی ہے اور میں نے خود بھی اپنے تخلیقی تجربے پر گہرائی سے غور کیا ہے جس کا ثبوت وہ بے شمار نظمیں (اور اشعار) ہیں جو میرے پانچوں شعری مجموعوں یعنی ’زہر حیات‘، ’دھرتی کا لمس‘، ’سنگ جاں‘، ’شعلۂ جاں ‘ اور ’شام تنہائی‘ میں بکھرے ہوئے ہیں اور ان شعری بیانات کی روشنی میں میرے تنقیدی رویے کے خدو خال بھی متعین کئے جاسکتے ہیں۔‘‘
(ابتدائیہ، دردِ تہِ جام، از: زاہدہ زیدی، ۲۰۱۰ء،ناشر: آبشار پبلی کیشنزعلی گڑھ، ص: ۸)
جب ہم زاہدہ زیدی کے حالات زندگی کاجائزہ لیتے ہیں تو ہم پر یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ زاہدہ کی ادبی زندگی کا باقاعدہ آغاز شاعری سے ہوا اور بڑی حد تک انہیں اس میدان میں کامیابی بھی ملی لیکن ان کی موزونیِ طبیعت کو جب یہاں چین نہیں ملا تو انہوں نے اپنا قدم ڈراما نگاری کی طرف بڑھایا اور اس میدان میں انہیں انفرادیت حاصل ہوئی۔ مختصر یہ کہ انہوںنے مغربی طرز کے کئی اچھے ڈرامے اردو ادب کو عطا کئے جو اردو ادب میں شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان ڈراموں کے مطالعے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ زاہدہ کا مطالعہ وسیع اور فکری نظریہ بلیغ تھا جس کے سہارے انہوں نے اپنی فکر کو فن کے قالب میں ڈھال دیا۔ چنانچہ زاہدہ زیدی اپنی شاعری اور ڈرامے کے بیچ پائے جانے والے فرق کو واضح کرتے ہوئے کچھ یوں لکھتی ہیں:
’’میری شاعری اور ڈراما نگاری کے درمیان کوئی گہری خلیج حائل نہیں ہے۔ میری شاعری میں ڈرامائی عناصر کی نشاندہی تو کئی نقادوں نے کی ہے اور مجھے خود بھی اس کا احساس ہے ۔ اس طرح ان ڈراموں میں بھی شعری عناصر کی فراوانی ہے۔ ان میں سے ہر ڈراما ایک اکائی کی طرح میرے ذہنی اُفق پر نمودار ہوا اور اس کی نشوو نما کچھ اس طرح ہوئی، جیسے بیج سے ایک پودا پھوٹتا ہے یا جیسے کوئی بچہ رحم مادر میں پروان چڑھتا ہے ۔ اپنی بیشتر نظموں کی تخلیق میں میںبھی کچھ اس قسم کے تجربے سے دوچار ہوئی ہوں۔‘‘
(پیش لفظ، دوسرا کمرہ، از: زاہدہ زیدی، ص: ۱۰، ۱۹۹۰ء ، ناشر: زاہدہ زیدی، علی گڑھ)
مذکورہ اقتباس کی روشنی میں جب ہم زاہدہ زیدی کے ڈراموں اور شعری مجموعوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ان میں وہ ساری خصوصیات ہمیں صاف دکھائی دیتی ہیں جو ایک بہترین شاعرہ اور عمدہ ڈراما نگار کے اندر ہونی چاہئے۔ زاہدہ کے شعری مجموعے ہوں یا ڈراموں کے ،وہ ہمیںہوا ہوائی کی سیر کرانے کے بجائے اسی زمین پر بسنے والوں کی زندگی کو قریب سے دیکھنے ، پرکھنے اور سمجھنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ لہٰذا جب ہم موصوف کی تخلیقات کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی یہی نثری تخلیقات ان کے تنقیدی شعور کا پتہ دیتی ہیں ۔ زاہدہ زیدی اس ضمن میں یوں رقم طراز ہیں:
’’بنیادی طور پر میں تخلیقی فن کار ہوں اور میری تنقیدی تگ و دو بھی میری تخلیقی سرگرمیوں کی توسیع اور تکمیل ہے۔‘‘
(ابتدائیہ، دردِ تہِ جام، از: زاہدہ زیدی، ۲۰۱۰ء،ناشر: آبشار پبلی کیشنزعلی گڑھ، ص: ۷،۸)
زاہدہ زیدی کے اب تک تین تنقیدی مضامین کے مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں اور ان کی پذیرائی بھی ہوئی۔ ان کا پہلا تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’رموز فکر و فن‘ ۱۹۹۳ء میں شائع ہوا ۔ اس میں کل نو مضامین ہیں، جن کے عنوانات یوں ہیں:
(۱) میرانیس کی شاعری میں ڈرامائی عناصر (۲) کلامِ اقبال کی عصری معنویت کے چند پہلو
(۳) اختر الایمان کی شاعری کا فکر ی و فنّی ارتقاء (۴) اختر الایمان کی شاعری میں داستان حسن و عشق
(۵) اردو ڈراما: آزادی کے بعد (۶) خواجہ احمد عباس: سوانحی و تنقیدی جائزہ
(۷) مخمور سعیدی کی شعری کائنات (۸) رفعت سروش کے منظوم ڈرامے
(۹) سلیمان اریب: کبھی ایک چیخ تھا اب خامشی ہوں
زاہدہ زیدی کی مذکورہ کتاب ’رموز فکر وفن‘ کا باقاعدہ آغاز ’میر انیس کی شاعری میں ڈرامائی عناصر‘ سے ہوتا ہے۔ یہ مضمون ۴۹؍ صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ زاہدہ نے اپنے اس مضمون میں انیس کے حوالے سے بڑی پُرمغز باتیں کی ہیں۔ زاہدہ نے انیس کی شاعری میں ڈرامائی عناصر کو کھوج کر یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کی کھوج ایک نئے زاویۂ نگاہ کی حیثیت رکھتی ہے جس سے ان کے ادبی ذوق اور مشرقی و مغربی مطالعے کا پتہ چلتا ہے۔ مذکورہ مضمون کے مطالعے سے میر انیس کی شاعری کے وہ سارے رموز ہماری آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتے ہیں جو کبھی ہماری آنکھوں سے اوجھل تھے۔ لہٰذا ہم انہی رموز کی روشنی میںانیس کی شاعری کو دنیا کی عظیم شاعری کی کسوٹی پر پرکھنے کے قائل ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ جب ہم دنیا کے عظیم ڈراما نگاروں کے ڈراموں اور شاعروں کی شاعری کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ جہاں عظیم ڈراما نگار وں نے اپنے ڈراموں میں شاعری کو ذریعۂ اظہار بنایا ہے، وہیں بے مثال شاعروں نے اپنی شاعری میں ڈرامائی طریقۂ کار کو اپنایا بھی ہے کیونکہ ڈرامے اور شاعری کا تعلق براہ راست مذہب سے رہا ہے۔ مختصر یہ کہ انیس کی شاعری میں وہ ساری خصوصیات بدرجۂ اتم موجود ہیں، جو عظیم شاعروں کی پہچان ہیں ، جن کی نشاندہی زاہدہ زیدی نے اپنے مذکورہ مضمون میں کی ہیں ۔ اقتباس دیکھئے:
’’انیس کی شاعری میں تقریباً وہ سبھی خصوصیات موجود ہیں، جنھیں عظیم شاعری کی پہچان کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً موضوع کی عظمت، ہمہ گیری ، اخلاقی تصورات ، وِژن، عقیدے کا خلوص ، تجربے کی گہرائی، شاعری میں وسعت اور گیرائی، زندگی کا گہرا مشاہدہ اور انسانی نفسیات کا ادراک، زندگی اور انسان سے گہری دلچسپی اور اس کے حسن سے والہانہ محبت، شدت احساس، ذوق جمال ، حقیقت کا بھرپور احساس اور تخئیل کی بے باکی اور توانائی، فن کارانہ ہنر مندی اور زبان و بیان کے وسائل پر غیر معمولی قدرت، محاورے اور زبان کا تخلیقی استعمال ، لہجے کا تنوع، انداز بیان کی شائستگی ، انفرادیت اور بے ساختہ پن، شخصیت کا شکوہ اور گداز اور ہر جگہ ایک اخلاقی ذہن کی کارفرمائی اور پھر ان کے ساتھ اخلاقی اور تہذیبی اقدار کا پس منظر — غرض کہ عظیم شاعری کی جتنی بھی خصوصیات ذہن میںآسکتی ہیں، تقریباً وہ سبھی انیس کی شاعری میںموجود ہیں، جو ایک بڑے شاعر کو ایک کامیاب ڈراما نگار بھی بنا سکتی ہیں۔‘‘
(مضمون: میر انیس کی شاعری میں ڈراما ئی عناصر، مشمولہ: رموز فکر و فن، از: زاہدہ زیدی، ۱۹۹۰ء، ص: ۵۴)
زاہدہ نے صرف انیس کی شاعری کی خوبیوں کو نہیں بیان کی ہیں بلکہ ان کی شاعری میں پائی جانے والی خامیوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو ایک سچے اور ایماندار ناقد کی پہچان ہے:
’’جو چیز انیس کی شاعری کی ڈرامائی حسن اور تاثر کو کسی قدر کم کردیتی ہے ، وہ کہیں کہیں ان کے کلام میں غیر ضروری طوالت اور تکرار ہے۔‘‘
(ایضاً، ص: ۵۴)
زاہدہ زیدی نے اختر الایمان کی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے جو مضامین تحریرکی ہیں، وہ ہمارے بڑے کام کے ہیں۔ زاہدہ نے اختر الایمان کی نظموں کا تنقیدی جائزہ پیش کرنے سے پہلے ان کے فکر و فن پر مؤثر انداز سے نظریں ڈالی ہیں اور اختر الایمان جس عہد میں شعور و فہم کی منزلیں طے کررہے تھے، وہ ادب میں فکری، ذہنی، جذباتی اور حسیاتی اعتبار سے تغیر پذیر تھا۔ یعنی ادب اور ادبی تصورات میں ردِّعمل کی روایت زور پکڑ چکی تھی۔ دو مختلف طرز احساس کا عمل وجود میں آرہا تھا۔ یعنی ایک طرف ترقی پسندی دوسرے دور میں داخل ہورہی تھی تو دوسری جانب نئی حسیت ایک نئے طرز احساس کی دعوے دار تھی۔ نئے لکھنے والے نئی حسیت کے مفسرین کے طور پر سامنے آنے لگے تھے لیکن ان نئے لکھنے والوں میں ایک ٹولی ایسی تھی ، جسے نئے ادب سے شدید اختلاف تھا اور وہ اس روایت کو توڑنا چاہتے تھے۔ مختصراً یہ کہا جائے تو شاید بیجا نہ ہوگا کہ اختر الایمان کا دور تحریکوں کا دور تھا لیکن انہوں نے اپنے آپ کو ان تحریکوں سے بچائے رکھا۔ یعنی نہ تو وہ ترقی پسند وں میں پوری طرح کھپ سکے اور نہ ہی حلقۂ اربابِ ذوق سے پوری طرح جڑ سکے۔ گو یہ کہ ہم ان کی شاعری کو کسی مخصوص عقیدے یا کسی نظریاتی فریم میں مقید نہیں کرسکتے کیونکہ ان کے ہاں زندگی کے خارجی حوالوں کا ادراک بھی ہے اور داخلی زندگی کی پیچیدگیوں کا شعور بھی۔ زاہدہ زیدی اس ضمن میں اپنا خیال ظاہر کرتی ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’مجھے اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ اختر الایمان اس دور کے سب سے اچھے اور اہم شاعر ہیں۔ وہ اردو شاعری کو اس منزل سے کافی حد تک آگے لے آئے ہیں، جہاں ترقی پسند شاعروں نے اسے چھوڑا تھا۔ انہوں نے جدید نظم کو زیادہ اکہرے وجودی تجربے فلسفیانہ تفکر، پیچیدہ وژن اور زندگی کے زیادہ گہرے ادراک سے آشنا کیا ہے اور فنّی طور پرپابند نظم سے آزاد نظم تک کے سفر کے دوران انہوں نے اپنے شعری اسلوب کو نکھارا، سنوارا اور اسے زیادہ معنی خیز بنایا ہے۔ ‘‘
(مضمون: اخترالایمان کی شاعری کا فنی و فکری ارتقاء، مشمولہ: رموز فکر و فن، از: زاہدہ زیدی، ۱۹۹۰ء، ص: ۱۹۷)
مختصر یہ کہ اختر الایمان کی شاعری میں پائے جانے والے درد و غم پر جب ہم غور کرتے ہیں ، وہ درد وغم ان کا ذاتی ہونے کے باوجود بھی پوری کائنا ت کا معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے ان ہی غموں کے ذریعہ اپنی زندگی کے ادراک اور گہری بصیرتوںکو منکشف کیا ہے جس سے ان کے فلسفیانہ تفکر اور احساس کی تڑپ کا پتہ چلتا ہے۔ غرض یہ کہ زاہدہ ، اخترالایمان کی شاعری کاجائزہ لیتے ہوئے کچھ اس طرح لکھتی ہیں:
’’اخترالایمان کی شاعری میں جذبے کا خلوص، وجودی تجربے کی شدت اور گہرائی تفکر کی زیریں لہر، زندگی کے گونا گوں مسائل اور عوامل کا گہرا ادراک ، موضوعات کی مرکزیت ،نوع انسان سے محبت اور حسن، خیر اور سچائی کی بنیاد اقدار کا گہرا شعور، احساس ذات اور عرفان حیات، کائناتی غم کے وسیلے سے گہری بصیرتوں کا انکشاف لہجے کی انفرادیت اور بازیافت، زبان کا احترام اور فنّی وسائل پر پوری توجہ اور انسان کے مقدر اور عصری صورت حال سے گہری وابستگی کچھ ایسی خصوصیات ہیں ، جو انہیں بہت اچھے اور بڑے شاعروں کی صف میں لاکھڑا کرتی ہیں۔‘‘
مذکورہ اقتباس کی روشنی میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ اخترالایمان کی شاعری میں پسماندہ ،دبے کچلے ہوئے انسانوں کی بے کسی و بے بسی کا جو تصور ہے، وہ کسی بنے بنائے نظریے کا ثمر نہیں بلکہ اخترالایمان نے انہیں اپنی زندگی میں بہت قریب سے دیکھے بھی اور اس کے شکار بھی رہے ہیں اور یہی صعوبتیں انہیں انسانوں کا ہمدرد اور خیر خواہ بنا دیتی ہیں۔
’اردو ڈراما: آزادی کے بعد‘ مذکورہ کتاب کا تیسرا اہم اور طویل مضمون ہے ۔اپنے اس مضمون میں زاہدہ نے جن نکات کو اُٹھایا ہے ، وہ قابل غور اور قابل اعتنا ہیں۔ اوّل یہ کہ ہمارے بیشتر نقادوں نے ڈرامے کی جانب توجہ ہی نہیں دی، دوم یہ کہ جنہوں نے اپنی توجہ اس جانب مبذول بھی کی ہے تو ان کے یہاں اکثر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ اپنے مقالات کو مغربی یا مشرقی ڈراموں کی جامع تعریف یا پھر نقادوں کے اقوال زریں سے آراستہ و پیراستہ کرکے پیش کرتے ہیں لیکن زاہدہ زیدی نے اس کے برخلاف جو رائے پیش کی ہیں، وہ صاف ستھری اور قابل توجہ ہیں۔ انہوں نے انہی باتوں کو ملحوظ خاطر رکھا ہے جس کی ضرورت آج اردو ڈرامے کو ہے۔ زاہدہ ریڈیو ڈرامے کو قابل اعتنا نہیں سمجھتیں جبکہ ڈاکٹر اخلاق اثر اور محمد حسن ریڈیو ڈرامے کے قائل ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کو اس قسم کے ڈراموں میں اردو ڈرامے کی ترقی نظر آتی ہے لیکن زاہدہ زیدی ریڈیو ڈرامے کے متعلق اپنی رائے کچھ یوں پیش کرتی ہیں:
’’ میری ناچیز رائے میں ریڈیو ڈراما، ڈرامے کی ایک بے حد مضمحل اور مسخ شدہ شکل ہے ، جسے ڈراما نہ کہا جائے تو بہتر ہوگا اور اردو کی حد تک اس سلسلے میں ایک پریشان کن بات یہ بھی ہے کہ پچھلے چالیس سالوں میں یہ اردو ڈرامے کی ترقی اور نشوونما میں حائل رہا۔ اگر اردو تھیٹر کے زوال کے اسباب میں بولتی فلموں کا عروج ایک اہم کڑی ہے تو اردو ڈرامے کی موجودہ پسماندگی اور اضمحلال کے اسباب میں نشری ڈراموں کی ریل پیل اور بے تکے فیشن کو سرفہرست رکھا جاسکتا ہے۔ گو کہ مجھے اس بات سے انکار نہیں کہ نثری ڈرامے کی حدوں کا اعتراف کرتے ہوئے اور اس کے مخصوص امکانات کو بروئے کار لاکر اس میدان میں بھی کچھ قابل قدر تخلیقات پیش کی جاسکتی ہیں اور بعض زبانوں میں کی گئی ہیں لیکن اسے کسی حالت میں بھی ڈرامے کا نعم البدل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔‘‘
(مضمون: اُردو ڈراما -آزادی کے بعد، مشمولہ: رموز فکر و فن، از: زاہدہ زیدی، ۱۹۹۰ء، ص: ۹۳)
یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ ڈرامے کی تکمیل اسٹیج پر ہی ہوتی ہے ۔ اس بات سے صرف زاہدہ ہی نہیں بلکہ تمام مکتبِ فکر و فن اتفاق رکھتے ہیں کیونکہ ڈرامے کے معنی ہی ہیں کرکے دکھانے کے، کہنے کامقصد یہ کہ ڈرامے کو جب تک اسٹیج پر پیش نہیں کیاجاتا ہے، گویا تب تک ڈرامے کی اسکرپٹ کا حال ویسا ہی رہتا ہے، جیسے کسی مجوزہ عمارت کا۔ زاہدہ ان ڈراموں کو بھی ڈراما ہی تسلیم کرتی ہیں ، جو برائے اشاعت لکھے گئے یا جنھیں اسٹیج کی زینت بننے کا موقع نہیں مل پایا۔ زاہدہ اپنے مذکورہ مقالہ کے ذریعہ ان لوگوں کا ذہن خصوصی طور پر ڈرامے کی طرف مرکوز کراناچاہتی ہیں، جنھیں یہ شکایت ہے کہ اردو ڈرامے میں رکھا ہی کیا ہے۔ اردو ڈرامے پر بحث نہیں کی جاسکتی ہے۔ گویا ایسے ہی لوگوں کو مشورہ دیتے ہوئے وہ مزید لکھتی ہیں:
’’ اگر ہم ڈرامائی تنقید کے فرسودہ طریقوں اور مصنوعی اُصولوں کو ترک کرکے اس کے خام مواد (تجربہ) بصیرت یا وژن‘ فورم اور تکنیک ترسیلی و سائل اور اس کے جمالیاتی پہلو پر اپنی توجہ مرکوز کریں تو زیادہ بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔‘‘
(ایضاً، ص: ۱۰۰، ۱۰۱)
مذکورہ اقتباس سے میں اتفاق رکھتا ہوں اور بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ زاہدہ نے اردو ڈرامے کے متعلق جو رائے پیش کی ہے، وہ بالکل درست ہے کیونکہ جب ہم آزادی کے بعد لکھے گئے ڈراموں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں زندگی سے تعلق رکھنے والی وہ ساری باتیں صاف نظر آتی ہیں، جن سے زندگی دوچار رہتی ہے یعنی اب ڈراموں میں انہی باتوں کو پیش کیا جاتا ہے جو زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اور ان باتوں سے گریز کیاجاتا ہے جن کا تعلق زندگی سے براہ راست نہیں ہوتا ہے۔ یعنی انسان اب خیالی دنیامیں جینا پسند نہیں کرتا ہے بلکہ اپنی زندگی کی حقیقت کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہے۔ لہٰذا دیگر اصناف کے تخلیق کار کی طرح ڈراما نگار بھی اپنا طرز نگارش بدلا ہے۔ یعنی ڈرامانگاروں نے عوام کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے اپنے ڈراموں میں دیو، پریوں کے قصوں، حسن و عشق کی بے جا داستانوں، ناچ گانوں، مصنوعی خیالوں اور طلسمی فضائوں کے بجائے سماجی حقیقت پسندی اور سیاسی آئیڈیلزم پر زور دیا ۔ اس طرح اردو ڈراما فرسودہ روایتوں سے اپنا رشتہ منقطع کرتے ہوئے اپنا رشتہ حقیقت پسندی اور سنجیدگی سے استوار کرتا ہے۔
زاہدہ زہدی نے نکّڑ ناٹک کے متعلق کئی اہم سوالات قائم ہیں۔ اس بات سے انکار بھی نہیںکیا جاسکتا ہے کہ نکّڑ ناٹک کو پچھلے چند برسوں میں کافی مقبولیت ملی ہے اور اس کی مقبولیت سے تھوڑا بہت اردو ڈراما بھی متاثر ہوا ہے لیکن یہ منکشف کردینا بہتر ہوگا کہ نکّڑ ناٹک میں سیاسی، سماجی مسائل کو تو بیان کیا جاسکتا ہے لیکن سنجیدہ خیالات اور تجربات کو پیش نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں ڈرامے کی ہمہ جہت زبان کا خیال رکھنے کے بجائے زبان کو توڑ مروڑ کر براہ راست طریقے سے اپنی بات کہنے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب ہم اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے نکّڑ ناٹک کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ ڈراما نہیں بلکہ ڈرامے سے ذرا مختلف قسم کی چیز نظر آتا ہے۔ زاہدہ زیدی نکّڑ ناٹک کے متعلق اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہی:
’’ نکّڑ ناٹک جسے پڑھے لکھے شہری نوجوان پیش کرتے ہیں، دراصل سیاسی پروپگنڈے اور ایجی ٹیشن کی ایک ڈرامائی شکل ہے اور یہ بات کو سبھی جانتے ہیں کہ اگر ڈرامے پروپگنڈہ آٹے میں نمک کی برابر ہو تو اکثر لطف دے جاتا ہے لیکن پروپگنڈے میں ڈراما جتنا زیادہ ہو، اچھا ہی ہے۔ دوسری طرف یہ مفروضہ بھی قابل قبول نہیں کہ نکّڑ ناٹک لازمی طور پر انقلابی تھیٹر اور برسراقتدار طبقے کے ظلم و تشدد کے خلاف ایک کارگر ہتھیار ہے۔ یہ ایک کارگر ہتھیار تو ضرور ہے لیکن اسے کوئی بھی پارٹی یا طبقہ اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرسکتی ہے اور اسے سرکاری مقاصد مثلاً ۲۰؍ نکاتی پروگرام کے پرچارکے لئے بھی استعمال کیا گیا ہے اور برسر اقتدار پارٹی کے سیاسی پرچار کے لئے بھی دس بارہ سال پہلے جنرل الیکشن کے موقع پر حبیب تنویر نے کانگریس پارٹی کے الیکشن کیمپین کے سلسلے میں ایک ڈراما تیار کیا تھا جس کا نام امانت کی ’اِندر سبھا‘ کے جوڑ پر ’اندراکی لوک سبھا‘ رکھا گیا تھا اور اسے بیل گاڑیوں میں دہلی کے گلی کوچوں میں دکھایا گیا اور شاید شہروں میں بھی دکھایا گیا ہو اور پھر ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو جب کارسیوکوں کو ایودھیا میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تو نہ صرف دھواں دھار تقریر یں ہوئیں اور بھجن گائے گئے بلکہ رات بھر کوی سمّیلن اور نکّڑ ناٹک بھی ہوتے رہے ۔ کوئی بھی شخص آسانی سے اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان نکّڑ ناٹکوں کا موضوع اور پیغام کیا ہوگا۔‘‘
(مضمون: اُردو ڈراما -آزادی کے بعد، مشمولہ: رموز فکر و فن، از: زاہدہ زیدی، ۱۹۹۰ء، ص: ۱۳۱)
زاہدہ نکّڑ ناٹک کے بارے میںمزید لکھتی ہیں:
’’ بہر طور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ نکڑ ناٹک عوامی تھیٹر کا جدید ترین روپ ہے تو بھی اسے ہر قسم کے ڈرامے اور تھیٹر کا بدل تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر ساری دنیا میں کلاسیکی موسیقی اور لوک سنگیت ، کلاسیکی آرٹ اور لوک آرٹ وغیرہ ایک ساتھ پھل پھول سکتے ہیں اور کسی حد تک ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہوسکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ نکڑ ناٹک کو اپنانے کے لئے ہم کلاسیکی تھیٹر کو رد کرنا ضروری سمجھیں اور میری نظر میں کلاسیکی تھیٹر کی تعریف میں ابسرڈ ڈراما، بارتول بریخت کا ایپک تھیٹر اور دوسرے جدید رجحانات بھی شامل ہیں،جو ڈرامے اور تھیٹر کے سبھی تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔‘‘
(ایضاً، ص: ۱۳۱- ۱۳۲)
’خواجہ احمد عباس: سوانحی اور تنقیدی جائزے‘ زاہدہ زیدی کا مذکورہ مضمون دو حصوں میں منقسم ہے: پہلے حصّے میں زاہدہ نے خواجہ احمد عباس کی سوانحی احوال و کوائف کو پیش کیا ہے جو مختصر ہونے کے باوجود بھی جامع ہے اور دوسرے حصّے میں خواجہ احمد عباس کے افسانوں اور ناولوں کا جائزہ لی ہیں۔ چونکہ خواجہ احمد عباس ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ انہوں نے مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی اور انہوں نے کم و بیش ہر صنف پراپنی انفرادیت کا نقش چھوڑا ہے۔ جیسا کہ خود خواجہ احمد عباس اس ضمن میں لکھتے ہیںـ:
’’ ادیب اور نقاد کہتے ہیں کہ میں صحافی ہوں، جرنلسٹ کہتے ہیں کہ میں فلم والا ہوں، فلم والے کہتے ہیں کہ میںایک سیاسی پروپگنڈسٹ ہوں، سیاست داں کہتے ہیں کہ میں کمیونسٹ ہوں، کمیونسٹ کہتے ہیں کہ میں بورژوا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ اور خود عباس کیا کہتا ہے ۔۔۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ مجھے کچھ کہنا ہے اور میں ہر ممکن طریقے سے کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ‘‘
(مجھے کچھ کہنا ہے، مشمولہ: نئی دھرتی، نئے انسان، از: خواجہ احمد عباس، ص: ۱)
خواجہ احمد عباس نے تقریباً ایک سو سے زیادہ افسانے لکھے ہیں۔انہوں نے اپنے افسانوں میں ان پہلوئوں پر زور دیا ہے جو انسان کی زندگی میں تاریک ترین کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی جو چیزیں اپنی طرف ہمارا ذہن مرکوز کراتی ہیں، وہ چونکا دینے والے مناظر، دلکش تصویریں اور ناقابل فراموش کرنے والے کردار ہیں اور جن چیزوں نے ان کے افسانوں کو رجائیت پسندی کے قریب پھٹکنے نہیں دیا، وہ ان کے مشاہدات کی توانائیاں اور مظلوم انسانوں سے اٹوٹ رشتے ہیں۔ ان کے اس قسم کے افسانوں کے نام ’ابابیل‘، ’ایک لڑکی‘ ، ’زعفران کے پھول‘، ’معجزہ‘، ’نیا انتقام‘، ’واپسی کا ٹکٹ ‘، ’سردار جی‘، ’نیلی ساڑی‘ اور ’ایک لڑکی سات دیوانے‘ قابل ذکر ہیں۔ زاہدہ اس ضمن میں یوں رقم طراز ہیں:
’’اگر ان افسانوں کو الگ الگ دیکھا جائے تو کبھی کبھی ان کے سرسری یا تشنۂ تکمیل ہونے کا احساس ہوسکتا ہے لیکن مجموعی طور پر ان کی فنّی کاوشوں میں گہرا ربط اور تسلسل ہے اور وہ کسی ایسے شاندار ڈرامے یا طویل فلم کے گونا گوں مناظر معلوم ہوتے ہیں جس میں زندگی اپنے تمام تر سوز و گداز، درد مندی، اضطراب، خلش ، بے بسی، بے چارگی اور ساتھ ہی ساتھ اپنی پوری تابندگی اور طرح داری کے ساتھ ایک مرکزی کردار کی حیثیت سے ہمارے سامنے اُبھرتی ہے اور اس طرح یہ افسانے ایک معتبر اور ہمہ گیر وژن کی تشکیل کرتے ہیں۔‘‘
(مضمون: خواجہ احمد عباس: سوانحی اور تنقیدی جائزہ، مشمولہ: رموز فکر و فن، از: زاہدہ زیدی، ۱۹۹۰ء، ص: ۱۴۰)
جب ہم خواجہ احمد عباس کے ناولوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم پر یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ ان کا ادبی کارنامہ ایک ناول نگار کی حیثیت سے زیادہ اہم اور وقیع ہے ۔ یعنی عباس کو افسانوں کی بہ نسبت ناول میں زیادہ کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔ ان کے ناولوں کے موضوعات بھی قریب ترین وہی ہیں جو ان کی دیگر ادبی کاوشوں کی شناخت ہیں۔ فنّی اور ہیئتی اعتبار سے بھی ان کے ناولوں میں کافی تنوع ہے۔ان کے ناولوں میں فلمی ٹکنیک اور ڈرامائی عناصر کے ساتھ ساتھ افسانوں کے خدو خال بھی نمایاں ہیں جو ناول کے وسیع تر امکانات کے تقاضے کو بڑی حد تک پورا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ زاہدہ نے اپنے مذکورہ مضمون میں جن ناولوں کا جائزہ پیش کیا ہے، ان کے نام ہیں: ’انقلاب‘، ’دنیامیرا گائوں‘ اور ’تین پہئے‘ ان میں دو ناول یعنی ’ناول‘ اور ’دنیا میرا گائوں‘ تاریخی اور سوانحی طرز کے ناول ہیں۔ ان دونوں ناولوں کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے زاہدہ لکھتی ہیں:
’’انقلاب ‘‘اور ‘‘دنیا میرا گائوں ‘‘خواجہ احمد عباس کی کردار نگاری مجموعی طور پر کامیاب ہے۔ تاریخی شخصیتوں کو بھی انہوں نے اس قدر بے ساختگی، دل فریبی اور والہانہ انداز سے پیش کیا ہے کہ ان کی تاریخی اہمیت کے ساتھ ان کی انفرادیت کے نقوش بھی اُبھر آئے ہیں اور افسانوی کرداروں کی پیشکش میں گہرے مشاہدے اور بے باک حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ درد مندی، دور بینی اور تخئیل آفرینی کے عناصر بھی بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن میرے خیال میں عباس عورتوں کی تصویر کشی میں خاص طور سے کامیاب رہے ہیں اور خصوصی طور پر ان چار لڑکیوں — سلمیٰ، آشا، لورا اور محمودہ کو ، جن سے انور عشق کرتا ہے، بڑے دلکش اور والہانہ انداز سے پیش کیا گیا ہے اور ان چاروں میں بھی سلمہ اور آشا کی تصویر بے حد تابناک ہے ۔ ان دونوں ناولوں کے اس مختصر تنقیدی جائزے سے خواجہ عبا س کے فلسفۂ حیات اور فنکارانہ کمالات کا اندازہ کرنا تو مشکل نہیں کیونکہ یہ تاریخی نوعیت کے ناول ہیں۔‘‘
(مضمون: خواجہ احمد عباس: سوانحی اور تنقیدی جائزہ، مشمولہ: رموز فکر و فن، از: زاہدہ زیدی، ۱۹۹۰ء، ص: ۱۳۱)
’تین پہئے‘ عباس کا تخلیق کردہ ایک اہم ناول ہے۔ اس ناول کا شمار اردو کے ان ناولوں میں ہوتا ہے، جن کا تعلق خالص فکشن سے ہے۔ ناول نگار نے دراصل اس ناول کے پس پردہ ممبئی کے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے بے بس، بے سہارا، لوگوں کے دکھ درد، شکستہ خوابوں ، دل شکن مصائب اور سیدھے سادے انسانوں پر ظلم اور تشدد کے توڑے جانے و الے پہاڑ کو پُردرد اور المناک انداز میں بیان کیا ہے یہ ناول چھ مختصر کہانیوں پر مشتمل ایک علامتی ناول ہے ۔ اس ناول کی مرکزی تھیم اس بھیکو کی کہانی ہے جو سڑکوں پرپڑے کچڑوں کو چنتا ہے۔ بھیکو اس ناول کا ایک ایسا کردار ہے، جسے ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ ہمارے آس پاس ہی رہتا ہے۔ بھیکو کی تین پہئے والی گاڑی دراصل زندگی کی ایک علامت ہے ۔ جس طرح بھیکو کو اس تین پہئے والی گاڑی کو گھسیٹنے میں مشکلیں در پیش آتی ہیں ، اسی طرح عام انسانوں کو اپنی زندگی جینے میں بھی دشواریاں پیش آتی ہیں اور یہی پریشانیاں زندگی کے لئے اجیرن بھی ثابت ہوتی ہیں لیکن بھیکو زندگی میں رونما ہونے والی پریشانیوں سے روپوش نہیں کرتا ہے بلکہ اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے۔ بظاہر اس کھٹارا گاڑی کے جو تین چھوٹے بڑے پہئے ہیں، وہ دراصل زندگی کے بے ترتیب ہونے کی ایک اہم علامت ہے۔ اس ناول کو دیگر پانچ کہانیاں بھی انسان کی زندگی سے سروکار ہیں۔ لہٰذا زاہدہ اس ناول کے متعلق اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں جس سے زاہدہ کی تنقیدی بصیرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’یہ ناول نہ صرف مشاہدے کی ندرت، شدت احساس، تجربے کی گہرائی ، سماجی بصیرت اور فلسفیانہ تفکر کا مظہر ہے بلکہ فنّی نظم و ضبط کی بھی ایک اعلیٰ سطح سے ہمکنارہے۔ میری نظر میںیہ عباس کی فنّی پختگی اور فکری بالغ نظری کی ایک عمدہ مثال ہے اور اس کا شمار اردو کے بہترین ناولوں میںہونا چاہئے۔ فورم، تکنیک اور علامتی طرز اظہار کے اعتبارسے تو یہ ناول عباس کے ناولوں میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے بھی یہ ان کا ایک نمائندہ ناول ہے۔‘‘
(ایضاً، ص: ۱۵۱)
’مخمور سعیدی کی شعری کائنات ‘ زاہدہ زیدی کا یہ مضمون دلچسپ اور خاصے کی چیز ہے۔ مخمور کے متعلق یہ خیال عام ہے کہ وہ بسیار اور زودگو شاعر تھے۔ اگر ان کی زندگی میں مسائل زندگی اور فکر معاش نہ ہوتی تو وہ ہمہ وقت شعر کہتے رہتے لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ مخمور کی زندگی میں اگر مسائل نہ ہوتے تو شاید وہ زندگی کے تجربات تو اتنے اچھے ڈھنگ سے پیش نہیں کر پاتے کیونکہ شاعر ہو یا ادیب، وہ اپنے معاشرے اور زندگی میں پیش آنے والے حالات سے ہی تجربہ و مشاہدہ حاصل کرتا ہے اور ان تجربوں اور مشاہدوں کو اپنے فن کے قالب میں ڈھال کر عوام و خواص کے سامنے پیش کرتا ہے کیونکہ آدم زاد کا تصور زندگی سے اور زندگی کے چٹخارے کا تصور مسائل و مصائب سے ہے اور جب زندگی کے چٹخارے کا تعلق مسائل و مصائب سے اور انسان کا وجود زندگی سے ہے تو بھلا کیونکر کسی انسان کی زندگی اس سے آزاد ہو۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ مسائل و مصائب کسی کی زندگی میں کم اور کسی کی زندگی میں زیادہ ہیں لیکن ہوتے ضرور ہیں۔ چنانچہ جب ہم اس تناظر میں مخمور کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ ایک معمولی انسان تھے اور ان کی زندگی مسائل اور مصائب سے ہمیشہ گھری رہی۔ اسی لئے ان کے شعری موضوعات بھی عام انسانوں کے دکھ درد، احساسات، جذبات، خیالات، تمنائوں اور حسرتوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ چونکہ انہوں نے اپنی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا، اس لئے ان کے یہاں داخلیت اور خارجیت کا فرق مٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ یعنی ان کے کلام قارئین و سامعین کے دلوں کو چھوئے بغیر نہیں رہتے ۔ان کی شاعری دراصل اردو شعری روایت اور جدید طرزِ فکر کا ایک امتزاج ہے لیکن انہوں نے جدیدیت کے سیلاب میں خود کو بہنے نہیں دیا اور جہاں کہیں اس کی زد میں آ بھی گئے ہیں تو وہاں وہ منھ کے بل بھی گرے ہیں۔ اس ضمن میں زاہدہ زیدی ان کی شاعری کا محاسبہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’ مخمور سعیدی کی غزل اردو کی شعری روایت اور جدید طرز فکر کا ایک متوازن امتزاج ہے۔ زبان و بیان پر قابل لحاظ دسترس، سادگی، بے ساختگی اور سوز و گداز ان کی اچھی غزلوں کی کچھ قابل قدر خصوصیات ہیں اور یہ بات بھی اپنی جگہ قابل تعریف ہے کہ مخمور سعیدی نہ تو جدیدیت کے سیلاب میں بہے اور نہ اس کے مخالفوں میں اپنا نام لکھوایا۔ لیکن ساتھ ہی یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ جہاں جہاں بھی مخمور سعیدی نے زیادہ جدید بننے کی کوشش کی ہے، وہ اکثر منھ کے بل گرے ہیں۔ اس کی چند مثالیں ان کی وہ غزلیں ہیں، جن کی ردیف چڑیاں، مرغابیاں، تتلیاں اور فاختہ وغیرہ ہیں ۔ یہ غزلیں اگر بالکل لغو اور بے معنی نہیں تو سپاٹ، بے کیف اور بے توکی تو ضرور ہیں۔ ان کے علاوہ مخمور سعیدی کی غزلوں میں بھرتی کے اشعار کافی ہیں یا پھر ایسے اشعار، جن میں کچھ نہ کچھ صناعی تو ضرور ہے لیکن جو جذبے کی گہرائی اور خیال کی تازگی سے محروم ہیں (اس مضمون کے لئے ان کے بہتر اور پراثر اشعار ہی کا انتخاب کیا گیا ہے) بہر طور ان خامیوں سے قطع نظر یہ کہنا ممکن ہے کہ مخمور سعیدی غزل کے ایک قادرالکلام شاعر ہیں اور یہ صنف ان کی افتاد طبع سے بڑی حد تک ہم آہنگ ہے۔‘‘
(مضمون: مخمور سعیدی کی شعری کائنات، مشمولہ: رموز فکر و فن، از: زاہدہ زیدی، ۱۹۹۰ء، ص: ۲۳۸)
مخمور سعیدی کی نظموں کا جائزہ لیتے ہوئے زاہدہ مزید لکھتی ہیں:
’’مخمور سعیدی کی نظم بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ مخمور سعیدی نے نظم کے فورم (Form) میں زیادہ اہم اور انوکھے تجربے نہیں کئے بلکہ کسی حد تک ان کی نظمیں فورم اور ٹیکنیک کی یکسانیت کا شکار ہیں لیکن ہم یہاں مخمور سعیدی کی شعری کائنات کو زیادہ نزدیک سے دیکھ سکتے ہیں۔ ان کی نظموں کے موضوعات کم و بیش وہی ہیں ، جو ان کی غزلوں میں دیکھے گئے ہیں لیکن نظم کی صنف کے پھیلائو اور لچک کا فائدہ اُٹھا کر مخمور نے ان موضوعات کی کچھ نئی جہات کو بھی فن کی گرفت میں لانے کی کوشش کی ہے۔‘‘
(ایضاً، ص: ۲۳۸،۲۳۹)
ہندوستان میں منظوم ڈرامے کی روایت پُرانی ہے۔ مغرب کے زیر اثر ہمارے ہاں نثری ڈرامے کا وجود عمل میںآیا اور نثری ڈرامے نے خوب ترقی بھی کی لیکن منظوم ڈرامے کسی نہ کسی صورت میںا پنے وجود کو باقی رکھا، خواہ اس کے نقوش دھندلے کیوں نہ ہوں۔ جہاں تک اردو میںڈ رامے کی بات ہے تو یہ بات سب پر آشکار ہے کہ اردو ادب میں دیگر اصناف کی بہ نسبت ڈرامے کا چلن بہت بعد میں ہوا اور ڈرامے کو اردو ادب میں جتنی ترقی ملنی تھی، نہیں مل پائی جس کے پس پردہ کئی وجوہات تھے ، جن کا یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں لیکن اس کے باوجود بھی جب ہم آج اردو ڈراموں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں کڑہن نہیں، مسرت ہوتی ہے کہ اردو میں بھی ایسے ڈرامے تخلیق کئے گئے ، جنہیں شاہکار کا درجہ حاصل ہے۔ رہی بات اردو میں منظوم ڈرامے کی تو پچھلے ساٹھ ستر سال میں کثیر تعداد میں منظوم ڈرامے لکھے گئے جو اردو ادب میں اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان منظوم ڈراما نگاروں میںایک نام رفعت سروش کا ہے جو بہت نمایاں ہے۔ رفعت نے کثیر تعداد میں منظوم ڈرامے تخلیق کئے۔ زاہدہ نے ان کے منظوم ڈراموں کو قاری کے اذہان اور اپنی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے: (۱) تمثیلی ڈرامے (۲) موضوعاتی ڈرامے (۳) تاریخی اور نیم تاریخی ڈرامے (۴) عصری ڈرامے۔ مختصر یہ کہ زاہدہ نے رفعت کے ڈرامے کے ہر گوشے پر اپنی نظر کو مرکوز رکھا اور بڑے پتے کی باتیں کی ہیں۔ ان کے منظوم ڈراموں کے متعلق اپنے خیال کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’ رفعت سروش ایک پُرگو اور تجربہ کار شاعر ہیں اور ان کا فطری رجحان ڈرامے کی طرف ہے ۔ ان کے منظوم ڈراموں میں موضوعات، فورم اور شعری اسلوب کے اعتبار سے کافی تنوع ہے اور اس کے ہر میدان میں انہوں نے کوئی نہ کوئی قابل قدر کام انجام دیا ہے۔ وہ اس معاملے میں بھی خوش نصیب رہے کہ انہیں اپنے ڈراموں کومختلف طریقوں سے پیش کرنے اور معروضی طور پر ان کا جائزہ لیتے رہنے کے مواقع برابر ملتے رہے لیکن مجموعی طور پر ماس میڈیا سے ان کی یہ قربت ان کے لئے فال نیک ثابت نہیں ہوئی بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے فکری اور فنّی ارتقاء اور انفرادیت کی تلاش میں یہ رشتہ ہمیشہ حائل رہا اور شاید یہی ان کے ادبی اور فنّی سرمائے میں روایتی انداز نظر اور فکری کم مائیگی کی بنیادی وجہ ہے۔‘‘
(مضمون: رفعت سروش کے منظوم ڈرامے، مشمولہ: رموز فکر و فن، از: زاہدہ زیدی، ۱۹۹۰ء، ص: ۲۷۷)
’رموز فکر وفن‘ کے علاوہ زاہدہ کے دو اور بھی تنقیدی مضامین کے مجموعے ہیں، جن کے نام ’لذت آشنائی‘ اور ’درد تہ جام‘ ہیں۔ ان مجموعوں میں شامل مضامین بھی پائے کے ہیں، جن کے مطالعے سے زاہدہ کی فکری، فنّی اور تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ خلیق انجم ،زاہدہ کے تنقیدی شعور پر روشنی ڈالتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’ پروفیسر زاہدہ زیدی کی تنقیدی تحریریں بصیرت افروز ہیں۔ ان تحریروں سے اردو کے جدید اور قدیم ادب سے ان کی بھرپور آگاہی کا پتہ چلتا ہے۔ یہ تحریریں فکر کی توانائی اور سنجیدہ لب و لہجہ کی حامل ہیں۔ زاہدہ زیدی صاحبہ ہر طرح کے ادبی تعصب سے بالا تر ہیں۔ اس لئے ان کی تنقیدی فکر میں توانائی اور تازگی ہے۔ ان کا طرز استدلال جذباتی یا تاثراتی نہیں بلکہ منطقی ہے ۔ ان کا اسلوب بہت صاف ، سلیس اور شگفتہ ہے۔ ہمارے بہت سے نقادوں کی طرح وہ قاری کو مرعوب کرنے کے لئے گاڑھی قسم کی انگریزی اصطلاحوں یا ان کے مشکل عربی اور فارسی ترجموں کا سہارا نہیں لیتی۔ عام فہم زبان میں مؤثر طریقے سے اپنی بات کہہ دیتی ہیں۔ ان کی نثر علمی ہے ۔ وہ چونکہ تخلیقی فن کار ہیں، اس لئے ان کے تنقیدی مضامین سے ان کے تخلیقی رویوں کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔‘‘
(رموز فکر وفن، تقریظ، از: ڈاکٹر خلیق انجم)
اسلوب احمد انصاری ، زاہدہ کی تنقید ی بصیرت کے متعلق یوں لکھتے ہیں:
’’اس مجموعے سے زاہدہ زیدی کے ادبی سروکار کے تنوع کا پتہ چلتا ہے اورتنقیدی مباحث میں ان کی بصیرت کا بھی۔ ان کے انداز بیان کی تازگی، شگفتگی اور حلاوت اس پر مستزا د ہیں۔‘‘
(رموز فکر وفن، تقریظ، از: اسلوب احمد انصاری)
مجموعی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ زاہدہ ایک روشن دماغ نقادتھیں۔ ان کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف شعر و ادب کا مطالعہ نئے زاویوں سے کرنے کی قائل تھیں بلکہ موضوع کے نادیدہ گوشوں کو روشن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہیں۔ چنانچہ ان کے جتنے بھی تنقیدی مضامین میری نظروں سے گزرے، وہ موضوعاتی اور اسلوبیاتی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ متن سے اخذ معنی، تخلیقی تجربات کی بازیافت اور فن پارہ کے لسانی، ادبی اور فکری پہلوئوں کے تجزیہ کے حوالے سے ان کی دیدہ ریزی اور بصیرت مندی ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ چنانچہ زاہدہ زیدی کا شمار اردوکے معتبر ناقدین میںکیا جانا چاہئے۔
————————
MD. SHAHNAWAZ ALAM
ACHARYA JAGADISH CHANDARA BOSE COLLEGE
Department of URDU.
Kolkata – 700020 (W.B.)
Mob. : 9874430252
E-mail : shahnawazalam_26@yahoo.com