رمیشا قمر (قمرالنساء)
گلبرگہ یونیورسٹی کرناٹک انڈیا
رپورتاژ
سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس
معاصر مہجری ادب – سمت و رفتار
مہجری ادباء و شعراء نے اردو کی ترویج اور مقبولیت کے راستے میں جو دیرپا نقوش ثبت کیے ہیں، وہ حوصلہ افزا بھی ہیں اور قابل ستائش بھی۔ لیکن اس کا اعتراف شاذ و نادر ہی کیا جاتا ہے۔ اس ضرورت کو سمجھا ورلڈ اردو اسوسیشن (دہلی) کے روحِ رواں اور بین الاقوامی شہرت یافتہ اسکالر پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے۔ جو نہ صرف جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں صدر شعبہء اردو کی حیثیت سے خدمت انجام دے چکے ہیں بلکہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (نئی دہلی) کی ڈائریکٹرشپ کی نازک ذمے داری بھی بحسن و خوبی نبھا چکے ہیں۔ انھوں نے ورلڈ اردو اسوسیشن کے بینر تلے 3، 4 اور 5 اپریل2021 کو ایک سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام کیا جس میں برصغیر ہند وپاک کے علاوہ کینڈا، امریکہ، جرمنی، ہالینڈ، ترکی، مصر، ایران، ازبکستان، مارشیس، بنگلہ دیش اور ڈنمارک کے بشمول دو درجن سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریبا 50 مند وبین نے آن لائن شرکت کی اور اس عالمی کانفرنس کو بامعنی بنانے میں اپنا زریں کردار ادا کیا۔ اس سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس کا مرکزی موضوع تھا “معاصر مہجری ادب- سمت ورفتار”۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ادب ایک طلسم کدہ ہے جس میں خالی ہاتھ داخل ہونے والا اپنی زنبیل انمول موتیوں سے بھرلاتا ہے اور ادب چونکہ معاشرے کی اساس بھی ہے اس لئے یہ معاشرے کی بقاء کے لئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتا ہے. ادبی تنظیمیں، انجمنیں اور تحریکیں اردو زبان وادب کی ترقی وترویج کے لیے حتی المقدور کوشاں رہتی ہیں ۔ اس کا اعتراف ضروری بھی ہے اور یہ اردو کے لیے نیک شگون بھی۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کہ ان کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔ کوئی علاقائی ہے تو کوئی ریاستی۔ کوئی قومی ہے تو کوئی بین الاقوامی۔ ہر کوئی اپنی اپنی سطح پر اردو زبان وادب کے فروغ کے لئے کام کرتی ہیں۔ جن سے نہ صرف زبان کی ترویج ہورہی ہے بلکہ نوجوان اردو طبقہ بالخصوص نئے لکھاری اور ریسرچ اسکالرز کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے مواقع ملتے بھی ہیں. لیکن ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے جو ہر سطح پر اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کے روح رواں پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کے بارے میں ابھی بس اتنا ہی عرض کروں گی جو کبھی حسرت موہانی نے خود کے لئے کہا تھاکہ:
“اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبعیت بھی”
خواجہ صاحب نے بھی عجیب طبعیت پائی ہے، اردو کی ترقی وترویج کے لیے کسی بھی موقع کو وہ گنوانا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ مشکل سے مشکل وقت میں بھی وہ اردو کی ترویج کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیتے ہیں۔ سیمناروں، کانفرنسوں، سمپوزیمس اور فی زمانہ مروج ویبنارز کا بڑا اہم رول تسلیم کیا گیا ہے۔ قومی ہو یا بین الاقوامی ہر سطح کے پروگرام منعقد کرنے، ادبی محافل سجانے، نئے لکھاریوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں خواجہ صاحب کو درک حاصل ہے. کووڈ کے چلتے ایسی محفلیں اور مجلسیں سجانے پر پابندیاں عائد ہوئیں تو ان کی حرکیاتی طبعیت اور سیمابی کیفیت نے الگ ہی طرح کے راستے انھیں سجھائے۔ کووڈ جیسی معمولی وبا بھلا انھیں کیسے خاموش بیٹھنے دیتی! بقول انشا:
بھلا گردش فلک کی چین ہے کسے انشا
غنیمت ہے کہ ہم صورت یہاں دو چار بیٹھے ہیں
خواجہ محمد اکرام الدین نے بھی گویا قسم کھا رکھی ہے کہ نہ تو خود چین سے بیٹھیں گے اور نہ اپنے ہم نواؤں کو بیٹھنے دیں گے .ان کی سیماب طبیعت فطرت کے نزدیک سکوت وخموشی کا دوسرا نام گویا موت ہے. یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کووڈ کے زیر اثر جنمے آج کے اندوہناک ماحول میں بھی وہ مہجری ادیبوں کو متعارف کرانے کی ذمہ داری کو سنھالنے میں لگ گیے ہیں۔ اسی کے ساتھ وہ جس طور پر جس انداز میں اردو کو نئی بستیوں میں متعارف کروا رہے ہیں اور اردو کو ڈیجیٹل دنیا سے آشنا کرانے کی کوششیں کررہے ہیں، وہ یقیناً قابل صد ستائش کام ہے. شاید اسی لئے وہ کچھ نہ کچھ نیا سوچتے اور کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے جب دیکھا کہ اب مل بیٹھنے کی صورت عنقا ہوگئی ہے تو ترکیب نکالی کہ کیوں نہ الیکٹرانک میڈیا کے استعمال کا نیا طریقہ کھوج نکالا جائے اور اس طرز پر دو چار ہی سہی، احباب کے ساتھ مل بیٹھنے اور تبادلہء خیال کا موقع ڈھونڈ نکالا جائے۔ کانفرنس کے انعقاد سے پہلے ہم نے بھی یہی سمجھا تھا کہ اس سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس میں بھی دوچار لوگ ہی ہوں گے۔ مگر خواجہ اکرام الدین کی مردم شناس نگاہوں نے کرہ ارض کے مختلف خطوں میں بسنے والے اردو کے عاشقین کی ایسی کہکشاں سجانے میں کامیابی حاصل کی ہوئی تھی کہ سبھی شرکاء دنگ رہ گئے اور سب نے ہی یک زبان اس کا اعتراف بھی کیا کہ خواجہ صاحب کی نگاہ واقعی دوربین سے کم نہیں ہے، جو اردو کے ان ستاروں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب رہے۔ اس طرح کے ہنر کی موجودگی ہی انھیں ان کے معاصرین سے جدا کرتی ہے ۔
ان لعل و جواہرات میں ادب کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز، انجنیرز اور وکلاء بھی موجود تھے۔ ان شخصیات نے ادب کو بڑی گہری نظر سے دیکھا اور پرکھا ہے۔ ان سب کو مدعو کرکے خواجہ اکرام الدین علم وادب کے اکتسابات سے فیوض حاصل کرنے اور بحث وتمحیص کے مواقع ہم طالب علموں کو فراہم کر رہے ہیں. اپنی تنظیم اور اپنی فکر کی توسط سے نوجوانوں کی ادبی تربیت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ تاکہ یہ نوجوان ادب کی روشنی و تابناکی میں اضافے کا باعث بنیں۔ ان کی تخلیقی، تہذیبی اور فکری نشونما ہو اور وہ ادب کے سرمایے میں اپنے حصے کی آہوتی ڈالنے میں کامیاب ہو سکیں.
اس سہ روزہ کانفرنس کا افتتاحی اجلاس مورخہ 3 /اپریل 2021 ہندوستانی وقت کے مطابق رات 9 بجے ہوا .اس میں کلیدی خطاب کے کے لیے اردو دنیا کی معروف شخصیت ڈاکٹر تقی عابدی (حال مقیم کینڈا) نے شرکت کی اور اپنے پر مغز کلیدی خطبے سے ہمارے ذہنی افق کو کشادہ کیا۔تقی عابدی ساٹھ سے زیادہ کتابوں کے مصنف ہیں ۔ یہ تمام کتابیں اردو کے سرمائے میں گرانقدر تحقیقی اضافہ ہیں ۔ ان کی خدما ت کا احاطہ چند جملوں میں ممکن نہیں مہجری ادب کے آسمان پر یہ سب سے روشن ستارے کی مانند ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے خطبے میں ہجرت سے متعلق ادبا و شعراء کے حوالے بیان کئے۔ ساتھ ہی عالمی تناظر میں خدمات انجام دے رہے فنکاروں کا خصوصا غیر ملکی فنکاروں کا جامع تعارف گوش گزار کیا اور نہ صرف تعارف بلکہ ان کی تخلیقات پر سیر حاصل روشنی بھی ڈالی۔
کلیدی خطبے سے پیش تر اس سہ روزہ عالمی کانفرنس کے روح رواں اور ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے سبھی احباب کا پرتپاک استقبال کیا۔ اپنے استقبالیہ کلمات میں مہجری ادب کے حوالے سے بامعنی گفتگو فرمائی اور اس کانفرنس کی غرض وغایت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ” عالمی سطح پر کورونا کی وبا کے سبب ورچوئل کانفرنس کا انعقاد اس لیے کیا گیا کہ تبدیلیاں اور نشیب و فراز تو قدرت کا فیصلہ ہے لیکن تمام حالات کے باوجود اپنی زبان وتہذیب کے لیے مسلسل کوشاں رہنا چاہیے ۔ یہ سرگرمیاں نہ صرف ہماری زندگی میں حرارت پیدا کرتی ہے بلکہ عزم و حوصلے کو بھی مہمیز کرتی ہیں ۔ اسی لیے آج ہم بالمشافہ ملاقات سے محروم ہیں مگر یہ روبرو ملاقات بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے ۔
سامعین اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ اس تقریب کے اہتمام کی صورت نکل آئی اور تمام مہمانان گرامی وقار نے اپنی شرکت سے اسے تاریخی آن لائن کانفرنس بنایا۔ورلڈ اردو ایسوسی ایشن ،نئی دہلی ایک غیر سرکاری اورخود مختار ادبی تنظیم ہے۔دنیا بھر میں اردو کے احباب، ادارے اور تنظیموں سے اشتراک و تعاون کی غرض سے اس کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارے کا مقصد اردو زبان وتہذیب کا فروغ اور باہمی اشتراک ہے۔اردوزبان صرف برصغیر کی زبان نہیں بلکہ ایک بڑی تہذیب کی علمبردار ہے۔
برصغیر کی گنگا جمنی تہذیب جو صدیوں پر مشتمل ہے اور جس کے لیے ہر دور میں امن وآشتی کے شیدائی افراد نے جدوجہد کی ہے ،ان سب کی شاندار تاریخ اردوادب کا ایک اہم اورتابناک حصہ ہے۔ آج کی حقیقت ہے کہ اردوزبان اب عالمی زبان کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔ اردوکی متعدد نئی بستیوں میں اردوزبان تین بڑی زبانوں کے صف میں جگہ بنا چکی ہے۔ظاہر ہےیہ اردوکی اثرپذیری اور دل آویزی ہے۔اردوکی عالمی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہا ہے۔ اب یہ زبان برصغیر کی چہار دیواری سے نکل کر متعدد براعظموں میں پھیل چکی ہے۔ امریکہ، افریقہ، آسٹریلیا، یوروپ کے ساتھ ایشیا کے متعدد ملکوں میں یہ زبان ایک انفرادی شناخت حاصل کرچکی ہے ۔ اردوزبان کا دائرہ اثر عوام وخواص کے ساتھ ساتھ عصری درس گاہوں تک بھی پہنچ چکا ہے۔ اردوکے دائراثر کو مزید وسعت اور مستحکم کرنے لیے ’’ ورلڈ اردو ایسوسی ایشن ، نئی دہلی‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔
اردو کی نئی بستیوں سے محبانِ اردو کو اس تنطیم سے جوڑنے کی کوشش ہورہی ہے، ساتھ ہی اردو کی بستیوں کے ادیبوں اور شاعروں اور صحافیوں کی خدمات کا اعتراف بھی اب تک اس طرح نہیں ہوسکا ہے جس کے وہ مستحق ہیں ۔آپ غور کریں کہ ان مہجری ادیبوں کے علاوہ مصر ، موریشس اردو کی ایک ایسی زرخیز سرزمین ہے جس کی جانب ہم اردو والوں کو متوجہ ہونا چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔انہیں مقاصد کے تحت اس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے ۔ہمیں خوشی ہے کہ آج کی اس محفل میں دنیا کے تمام گوشے سے اہم شخصیات موجود ہیں ۔ میں کن لفظوں میں ان شخصیات کا نام لوں کیونکہ یہ وہ شخصیات۔ ہیں جو اپنی علمی ، ادبی ، تہذیبی خدمات کے سبب اعلیٰ مقام کے حامل ہیں ۔”
اس افتتاحی اجلاس کے معزز مہمانان تھے پروفیسر یوسف خشک (چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان)، پروفیسر یوسف عامر (سابق وائس چانسلر، الازہر یونیورسٹی، قاہرہ مصر)، پروفیسر خلیل طوقار (صدر شعبہ اردو، استنبول یونیورسٹی ترکی)، پروفیسر رایہ فوزی (صدر شعبہ اردو عین شمس یونیورسٹی مصر)، ڈاکٹر جاوید شیخ (صدر اردو مرکز لندن)، جناب نصر ملک (ڈنمارک)، جناب اقبال حیدر (جرمنی)، جناب امین حیدر (صدر اردو انسٹی ٹیوٹ شکاگو امریکہ)،جناب جیم فے غوری (اٹلی)، ڈاکٹر اطہر فاروقی (سکریٹری انجمن ترقی اردو ہند)، جناب خلیل الرحمن (ایڈووکیٹ، سپریم کورٹ آف انڈیا) اور ناصر ناکاگاوا (مدیر اردو نیٹ جاپان)۔ ان سبھی مہمانان گرامی قدر کا خواجہ اکرام الدین صاحب نے نام بنام استقبال کیا۔ ان مہمانان نے بھی اپنی اپنی گفتگو میں مہجری ادب کے حوالے سے اپنی ناقدانہ رائیں پیش کیں.
کسی بھی اجلاس، کانفرنس یا سیمنار کی کامیابی کی باگ ڈور اس کے مقررین، مہمانان یا صدورکے ہاتھ میں نہیں بلکہ فی زمانہ نظامت کرنے والے کے ہاتھ میں ہوتی ہے، اس لیے امید کی جاتی ہے کہ ناظم جتنا منجھا ہوا اور ادب پر گہری نظر رکھنے والا ہوگا، پروگرام بھی اتنی ہی کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔ ایک ایسے ہی سلیقہ مند اور کامیاب ناظم کی حیثیت سے شہرت رکھتے ہیں ڈاکٹر شفیع ایوب صاحب۔ انھوں نے اپنی نظامت سے اس سیشن کی کامیابی میں چار چاند لگائے اور پروگرام میں کبھی بھی اکتاہٹ کا احساس نہیں ہونے دیا۔ آخر میں ڈاکٹر رکن الدین کے شکریے کے ساتھ افتتاحی اجلاس کا اختتام ہوا.
مورخہ 4/اپریل 2021 کو شام پانچ بجے کانفرنس کا پہلا تکنیکی اجلاس (Technical session) بعنوان “مہجری تدریس وترویج”منعقد ہوا. جس کی مجلس صدارت میں جلوہ افروز تھے ڈاکٹر فاطمہ حسن (پاکستان) اور پروفیسر عبدالرب استاد (گلبرگہ یونیورسٹی ، کرناٹک)۔ جب کہ پروفیسر شفیق احمد اشرفی (خواجہ معین الدین چشتی لسان یونیورسٹی،لکھنؤ) نے مہمان اعزازی کی حیثیت سے شرکت کی۔ پروفیسر جلال السعید الحفناوی (قاہرہ یونیورسٹی مصر) ڈاکٹر محیا عبدالرحمن (تاشقند اسٹیٹ یونیورسٹی ازبکستان)، عنایت حسین عیدن (ماریشس)، ڈاکٹر علی بیات (تہران یونیورٹی)، ڈاکٹر تغرید محمد البیومی (الازہر یونیورسٹی قاہرہ)، پروفیسر غلام ربانی (ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ دیش)، ڈاکٹر عثمان غنی رعداور ڈاکٹر نعیم مظہر (نمل یونیورسٹی اسلام آباد)، ڈاکٹریاسمین کوثر (یونیورسٹی آف سیالکوٹ)، ڈاکٹر مصطفی سرپرآلاپ (ترکی)، جناب عارف نقوی (برلن)، جناب نصر ملک (ڈنمارک)، جناب جیم فے غوری (اٹلی)، سرور غزالی، عشرت معین سیما (جرمنی)، سمن شاہ (فرانس) اورافروز عالم (کویت) نے مہجری تدریس و ترویج کے حوالے سے اپنے اپنے علمی مقالات پیش کرکے اپنی بصیرت سے مشارکین کو محظوظ کیا۔ اس سیشن کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر شگفتہ فردوس نے بخوبی انجام دیئے .
اس سہ روزہ عالمی کانفرنس کے تیسرے دن کا پہلا اجلاس مورخہ 5/اپریل شام بجے شروع ہوا جس میں ڈاکٹر جاوید شیخ (صدر اردو مرکز لندن) اور رضا علی عابدی نے صدارت کے فرائض انجام دیے۔ جب کہ ایلدوست ابراہیموف (آذربائیجان)، محترمہ نجمہ عثمان (لندن) اور ڈاکٹر محمد افضال بٹ (سیالکوٹ) نے بحیثیت مہمان اعزازی شرکت کی۔ مقالہ نگاروں میں محترمہ قیصرہ ناہید (لاہور)، ڈاکٹر شگفتہ فردوس، (سیالکوٹ)، ڈاکٹر صنم شاکر (بہاول پور)، سیدہ ہما شہزادی (سرگودھا)، علی عمران اور ڈاکٹر محمد رکن الدین (دہلی) نے مختلف ذیلی موضوعات پر اپنے مقالات پیش کیے۔
تیسرے دن کے آخری سیشن میں پروفیسر انور پاشا (جے این یو، نئی دہلی) اور محترم نصر ملک (ڈنمارک) نے صدارت کے فرائض انجام دئے. اور
محترمہ روبینہ فیصل (کنیڈا)، جناب انور ظہیر رہبر (برلن)، پروفیسر مہر الیاس (سیالکوٹ)، ڈاکٹر ارم صبام (بہاول نگر)، ڈاکٹر رفعت جمال (بھوپال)، امتیاز رومی (جے این یو)، رمیشا قمر (گلبرگہ یونیورسٹی )، محمد معراج (دہلی)اور شاہینہ یوسف (کشمیر ) نے بطور مقالہ نگار شرکت کی اور اپنے پیپرز سے سامعین کے علم میں اضافے کیے.
صدارتی خطاب پیش کرتے ہوئے محترم نصر ملک نے تمام مقالوں پر سیر حاصل گفتگو کی جبکہ پروفیسر انور پاشا نے مہجری ادب کے حوالے سے ذہن کشا کلمات سے مجلس کی علمی رونق میں اضافہ کیا۔ ناظم اجلاس کی حیثیت سے ڈاکٹر شگفتہ فردوس نے پروگرام کی کارروائی بحسن و خوبی چلائی.
ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کا یہ سہ روزہ عالمی اردو کانفرنس مہجری ادب کے حوالے سے ایک اہم اور کامیاب کانفرنس رہی، جہاں برصغیر کے ساتھ ساتھ اردو کی نئی بستیوں میں اردو کے فروغ ، مسائل اور امکانات کے ساتھ ساتھ دیگر پہلوؤں پر بہت ہی کارآمد گفتگو کی گئی. یہ بھی ثابت ہوا کہ ہمارے مہجری قلم کاروں نے اپنی قوت سے بڑھ کر اردو شعر وادب کو پوری دنیا میں فروغ بخشنے کا کارنامہ انجام دیا۔ انھوں نے دیارِ غیر میں اردو کی جو بستیاں قائم کی ہیں اور اردو تدریس ، اردو شاعری اور اردو نثرکی مختلف اصناف میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں وہ اردو کی علمی وراثت میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہے اور ادب کی ثروت مندی کا ثبوت بھی۔ اس حوالے سے اس سیمینار میں مختلف اہم موضوعات پر معلوماتی مقالے پڑھے گئے اور معزز صدور نے قابل قدر آراء پیش کرکے ان کی خدمات کو کھلے دل سے سراہا۔
آخر میں اس سہ روزہ عالمی کانفرنس کے روح رواں خواجہ اکرام الدین نے سبھی مشارکین کا شکریہ ادا کیا اور محترم خلیل الرحمن ایڈوکیٹ کے گراں قدر اور ناقدانہ تاثرات کے ساتھ اس کانفرنس کے اختتام کا اعلان ہوا. ہم نے بھی اس امید کہ ساتھ اپنے زوم ایپ کو کلوز کیا کہ خواجہ صاحب پھر جلد ہی اس طرح کی بزم دوبارہ آراستہ کریں گے۔
شکریہ