You are currently viewing جرمنی میں ارود کے روشن چراغ عارف  نقوی

جرمنی میں ارود کے روشن چراغ عارف  نقوی

پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین 

جرمنی میں ارود کے روشن چراغ عارف  نقوی

         بر صغیر  سے باہر  اردو کی خدمت کرنی والی شخصیتوں  کی خدمات کا اعتراف یا ان کا تعارف کم ہی ہوا ہے ۔حالانکہ اردو کے لیے  ان کی خدمات  ایسی ہیں جن کو ادب کی تاریخ میں نمایاں جگہ ملنی چاہیے  بلکہ جامعات میں  مہجری ادب کو کورس کا حصہ بنایا جانا چاہیے کیونکہ کسی زبان کی ثروت مندی  مہجری تخلیقات و تصانیف  پر بھی منحصر کرتی ہے ۔سنجیدگی سے  دیکھا جائے تو اس سمت میں کام ہوئے ہی نہیں ہیں جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہم خود اپنی زبان کے دائرے کو محدود کررہے ہیں ۔مقام شکر ہے کہ  سوشل میڈیا کے سبب  اب مہجری ادیبوں اور شاعروں  سے تعارف ہونے لگا ہے اور بیشتر احباب اردو حلقے میں پہچانے  جانے لگے ہیں ۔ لیکن ان پر سنجیدہ  کام کرنے کی ضرورت  ہے ۔

         جرمنی میں اردو کا ایک بڑا حلقہ ہے یہاں کئی اردو کی انجمنیں بھی ہیں اور کئی اہم شخصیات بھی ہیں جن کی خدمات کا اعتراف کیاجانا   ضروری ہے ۔ جرمنی کی ایسی شخصیات میں  عارف نقوی کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے ۔ وہ بنیادی طور پر ہندستان کے شہر  لکھنؤ سے ہیں ۔گزشتہ  چھ دہائیوں سے جرمنی کی راجدھانی  برلن میں مقیم ہیں ۔ ان کے جرمنی جانے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے جسے کسی اور موقعے سے ضبط تحریر میں لاؤں گا ابھی تو صرف ان کی اردو دوستی اور اردو نوازی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں ۔ جرمنی میں  ان کے قیام  کی مدت نصف صدی سے بھی زیادہ ہے لیکن بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے  نہ تو اپنی تہذیب  اورنہ اپنی زبان سے رشتہ منقطع کیا ۔یہ اس وقت جرمنی میں مقیم ہوئے جب دیوار برلن   جرمن قوم کو دو حصوں میں منقسم کیے ہوئے تھی لیکن یہ دیوار بھی ایک سنہری  تاریخ لکھتی ہوئی منہدم ہوگئی ۔ عارف نقو ی ان  تمام نشیب و فراز     کے شاہد بھی ہیں ۔اس وقت جرمنی میں برصغیر سے اتنے لوگ بھی شہریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے ، تب عارف نقوی نے وہاں اردو کی شع روشن رکھنے کے لیے  ’’ اردو انجمن‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ یہ بڑا اہم اقدام تھا اس بہانے انھوں نے اردو والوں کو جوڑنا شروع کیا اور جرمنی میں اردو کے رنگارنگ پروگرام کے انعقاد سے اہل برلن کو اردو زبان و تہذیب سے آشنا کرایا۔علی سردا جعفری، کیفی اعظمی ، کرشن چندر، خواجہ احمد عباس   ، احمد ندیم قاسمی اور کئی  نامور اردو کی شخصیات  پر بڑے اہتمام سے پروگرام کرائے ۔ اس طرح کے پروگرام سے ان  لوگوں کو بھی زبان و ادب سے قریب کیا جو لکھنا تو چاہتے تھے مگر انھیں پلیٹ فارم  نہیں مل رہاتھا۔ عارف نقوی نے  ایک بڑا کام یہ بھی کیا کہ جرمن زبان میں اپنی   نظموں او ر غزلوں کا ترجمہ  ’’خار اور گل ‘‘  کے نام سے  شائع کرایا جس   سےجرمنی کے لوگ   اردو  زبان وتہذیب سے واقف ہوئے ۔ عارف نقوی   فری یونیورسٹی برلن میں برسوں تک اردوتدریس سے وابستہ رہے اور آج بھی  دیگر مصروفیات کے علاوہ اردو درس و تدریس   سے وابستہ ہیں ۔اب تک ا ن کی  درجنوں  اردو تصانیف  منظر عام پر آچکی ہیں ان میں افسانوں کا مجمو عہ’’ سوئے فردوسِ زمیں‘‘شعری مجموعہ جرمن زبان میں ’’ خارو گل ‘‘   کیرم سے رشتہ،جرمنی میں نصف صدی ،شعری سندیسے’’  کھلتی کلیاں‘‘زخموں کے چراغ ، نظمیں’’ نقوش آوارہ ‘‘یادوں کے چراغ،خلش (ہندی) ایک سے چار،زخموں کے چراغ،پباسی دھرتی جلتے سائے،جرمنی اتہاس کے درپن میں(ہندی)    ،جرمنی کل اور آج،تلاش سحر ،ڈرامے نئی زندگی، سوانگ،سودا،دور کے ڈھول ،امپائر ،کیرم ،غلاموں کی ملکہ رضیہ سلطان وغیرہ ۔

         عارف نقوی  اردو کے اہم مہجری ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ   بہت اچھے انسان ہیں ۔ ان کی کشادہ قلبی  اور فراخ ذہنی کا اندازہ اس  بات سے بھی ہوا کہ دو سال قبل  جب  بزم ادب برلن کی دعوت پ میں ر برلن گیا تو جیسے ہی ان کو اطلاع ملی  انھوں نے   مجھ سے رابطہ قائم کیا اور برلن پہنچتے ہی  مجھ سے ملے اور نہ صرف شاندار ضا فت کی بلکہ اس پروگرام میں بہ نفس نفیس شریک ہوئے  گرچہ   کچھ تکلفات درمیان میں حائل تھے ۔ میں نے دیکھا کہ عمر  کے اس حصے  جبکہ وہ پچاسی برس کے ہوچکے ہیں  بہت ہی متحرک اور فعال رہتے ہیں ۔ان کے ساتھ ایک ادبی پروگرام کے لیے فرینکفرٹ میں ساتھ رہا اور جب ہندستان آئے تو ان سے تفصیلی ملاقات رہی ۔ ہر ملاقات میں اردو  کے حوالے سے گفتگو ہوتی رہی ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو اردو سے کس قدر محبت ہے ۔ ابھی حال ہی میں برلن شہر میں ایک انوکھا پروگرام منعقد ہوا  جس میں عارف صاحب بھی پیش پیش رہے وہ پروگرام ایک گرجا گھر میں منعقد ہوا جس کا عنوان   امن عالم اور اردو شاعری تھا اس پروگرام میں جرمنی کے مشہور خطاط پروفیسر شاہد کی خطاطی کی نمائش بھی ہوئی ۔ عارف نقوی  کی ادبی سرگرمیوں کی ایک اہم بات یہ ہے بھی ہے کہ وہ اپنی انجمن میں اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کے شائقین کو بھی ساتھ رکھتے ہیں ۔ ان کے کئی پروگرام میں ان کے ہمراہ بنگالی اور پنجابی کی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں ۔  اس طرح کے اقدام سے زبان کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور عارف نقوی اس  کو بخوبی سمجھتے ہیں ۔

         لکھنے پڑھنے کے علاوہ وہ  ادا کاری میں بھی مہارت رکھتے ہیں کئی ڈراموں میں انھوں نے مختلف طرح کے کردار نبھائے ہیں ۔ا ن کی زبان اور اسلوب میں لکھنؤ کی گہری چھاپ دیکھائی دیتی ہے ۔ ان کے افسانے ، ڈارمے ، مضامین یا شاعری میں  اسے دیکھ سکتے ہیں ۔ یہاں ا ن کے تازہ ترین کلام کی  یہ مثال ملاحظہ کریں؛

نفرت کا سندیسہ  ہے مذہب کا   بہانہ ہے

ذہنوں میں جہالت ہے    وحشت کا زمانہ ہے

چن چن کے  صدہا تنکے اس گھر کو بنایا تھا

اپنوں نے      جلایا  ہے  بس   اتنا فسانہ ہے

صیاد   نے   پر نوچے    قاتل  نے  گلا   کاٹا

کھولی تھی زباں میں نے پوچھا تھا کہ دانا ہے

اک داغ ہے سینے میں دو اشک ہیں آنکھوں میں

مفلس نہ مجھے   سمجھو   یہ  میرا  خزانہ  ہے

Leave a Reply