You are currently viewing جاپان میں اردو کی صورت حال

جاپان میں اردو کی صورت حال

جاپان میں اردو کی صورت حال

پروفیسر خواجہ اکرام الدین کا انٹرویو ۔  قمر تبریز 

 اخبار‘‘ چوتھی دنیا ’’ میں شائع شدہ انٹرویو کی قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔

 

اردو زبان کی شیرینی و لطافت سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا۔ اس زبان نے صرف اپنوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ غیروں میں بھی مقبولیت کا درجہ حاصل کیا۔ ہندوستان میں بھلے ہی یہ زبان سیاسی سازش کا شکار ہو کر رہ گئی، لیکن اب اس نے دنیا کے دور دراز کے علاقوں میں نئی بستیاں بسانی شروع کردی ہیں۔ اسی سلسلے میں ’چوتھی دنیا‘ کے خصوصی نامہ نگار محمد قمر تبریز  نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے ہندوستانی زبانوں کے مرکز میں اردو کے استاد  ڈا کٹرخواجہ اکرام  سے ایک گفتگو کی جس کے اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔

 ابھی آپ نے اردو کے حوالہ سے جاپان کا سفر کیا اور اردو نیٹ جاپان نے آپ کو سال 2010 کے لیے بہترین کالم نگار کے انعام سے نوازا ہے ۔ آپ نے جاپان میں اردو کا کس طرح کا ماحول دیکھا؟
جاپان جاتے وقت میرے ذہن میں جو تصور تھا وہ یہ تھا کہ وہاں اردو بولنے والے کم ملیں گے، اردو تہذیب سے وابستہ حضرات کم ملیں گے ، لیکن وہاں پہنچ کر کے ایسا لگا کہ ہم جاپان میں نہیں بلکہ برصغیر کے کسی خطہ یا اردو کی کسی ایک ایسی بستی میں ہیں جہاں اجنبیت کا احساس ہی نہیں ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ اردو نیٹ جاپان، جو جاپان سے مستقل آن لائن اخبار ہے اور مسلسل کئی برسوں سے نکل رہا ہے، اور میں تقریباً دو برسوں سے اس کے لیے کالم لکھتا رہا ہوں۔ اردو نیٹ جاپان نے اس سال مجھے مہمان خصوصی کے طور پر اپنی دوسری تقریب میں بلایا۔ نہ صرف مہمان خصوصی بلکہ انھوں نے مجھے بعد میں مطلع کیا کہ اس سال اردو نیٹ جاپان نے چار شخصیات کو2010کے لیے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ دینے کا ارادہ کیا ہے اور ان میں ایک نام میرا بھی تھا۔مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے دیکھا کہ وہاں ہزاروں لوگ موجود تھے ، جو اردو تہذیب و زبان سے وابستہ ہیں۔بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تمام لوگوں کو متحد کرنے میں، ان تمام لوگوں کو جمع کرنے میں اردو نیٹ جاپان نے بڑا کام کیا۔ میں نے اردو نیٹ جاپان کے چیف ایڈیٹر سے انٹر ویو بھی کیا اور ان سے کئی سوالات کیے۔ ان میں سے ایک سوال یہ تھا کہ آپ جاپان میں بیٹھے ہوئے ہیں، آپ کی شہریت بھی جاپان کی ہے اور آپ جاپانی زبان بھی جانتے ہیں۔آپ کی فیملی بھی جاپان کی ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ کیسے آیا کہ اردو نیٹ جاپان سے نکالا جائے تو انھوں نے بتایا کہ یہ دراصل جاپان میں جو غیر مقیم پاکستانی اور غیر مقیم ہندوستانی ہیں ان کے لیے اس کی اشد ضرورت تھی کہ مقامی خبروں کو ان کی زبان میں پیش کیا جائے ۔ انھوں نے بتایا کہ جب یہاں جاپان میں لوگ بڑی تعداد میں ہندوستان اور پاکستان سے آئے، جو اردو اور انگلش زبان جانتے تھے، جاپانی زبان نہیں جانتے تھے توان کے لیے ضرورت یہ تھی کہ جاپان کے حوالہ سے،جاپان میں کیا ہو رہا ہے اور ان کے لیے جاپان میں کیا مواقع ہیں اور جاپان سے وابستہ تمام معلومات کو لے کر بڑی کمی تھی ۔تب میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ کوئی آن لائن ایسا بلاگ شروع کیا جائے جس سے ہم ان لوگوں کو تمام انفارمیشن دے سکیں۔انھوں نے مجھے بتایا کہ میرا ارادہ یہ تھا کہ ہم بلاگ شروع کریں گے لیکن جب میں نے احباب سے مشورہ کیا تو انھوں نے کہا کہ نہیں آپ آن لائن اخبار شروع کریں۔لہٰذا میں نے اس آن لائن اخبار کو نکالنا شروع کیا۔ انھوں نے بتایا کہ پاکستان سے آنے والوں کی تعداد بہت بڑی تھی، ان میں سے کچھ طبقہ ایسا تھا جو انگریزی بھی جانتا تھا ، اردو بھی جانتا تھا اور ایک طبقہ ایسا تھاجو صرف اردو جانتا تھا۔اب ان کے لیے یہاں زبان کی بہت پریشانی تھی۔ اب جو لوگ بھی پاکستان یا ہندوستان سے آئے تھے، وہ ہرروز اپنے ملک کی خبر یں جاننا چاہتے ہیں، اپنے علاقہ کی خبر یں جاننا چاہتے ہیں۔ تو کوئی نہ کوئی آن لائن اخبار یہ لوگ ضرور پڑھتے تھے۔اسی کو لے کر ان قارئین نے ان سے یہ تقاضہ کیا کہ جب آپ ایسا اراد ہ کر رہے ہیں تو کیوں نہ ایسا کریں کہ کوئی آن لائن اخبار نکالیںتاکہ ہم اپنی ملکی خبروں سے بھی باخبر رہ پائیں گے اور جاپان کے حوالہ سے جو یہاں کی مقامی خبریں ہیں وہ آپ کے اخبار کے ذریعہ ہمیں مل جائیں گی۔ اردو نیٹ جاپان کو نکلتے ہوئے دو ڈھائی برس ہوئے ہوں گے، اور اس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ پورے جاپان میں تو پڑھا ہی جاتا ہے، بلکہ اسے تقریباً50ممالک میں بھی پڑھا جاتا ہے اورجاپان میں تو اس انداز سے پڑھا جاتا ہے کہ صبح اٹھتے ہی لوگ اس اخبار کو پڑھتے ہیںاور پڑھتے ہی نہیں بلکہ کوئی چیز اچھی لگتی ہے، کوئی خبر پسند آتی ہے تو فون کر کے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ آپ نے فلاں خبر پڑھی ہے یا نہیں اور خبروں پر گفتگوکرتے ہیں۔ ایک ہفتہ کے قیام کے دوران میرے کئی احباب جو میرے آس پاس رہتے تھے انھوں نے جب اپنے دوستوں سے گفتگو کی تو مجھے معلوم یہ ہوا کہ وہ اردو نیٹ کے حوالہ سے بات کر رہے ہیں ۔اچھا اتفاق یہ ہوا کہ ہماری ملاقات زیادہ تر ان لوگوں سے ہوئی جو پاکستان کے غیر مقیم ہیں، اور جنھوں نے جاپان کی شہریت حاصل کر لی ہے۔تو مجھے یہ محسوس ہواکہ یہ اردو زبان جس نے پوری دنیا میں ہجرت کی ہے اور ہجرت کے اعتبار سے اردو زبان دنیا کی پہلی ایسی زبان ہے،جس نے پوری دنیا کے مختلف خطوں کا سفر کیا ہے۔ویسے اقتصادی نقطۂ نظر کو ہٹا دیں تو انگریزی تو پوری دنیا میں بولی جاتی ہے کیونکہ وہ ضرورت کی زبان ہے ،اقتصادیات کی زبان ہے، بازار کی زبان ہے۔لیکن اردو دنیا کی ان تہذیبی زبانوں میں سرفہرست ہے۔ ہجرت کے اعتبار سے بھی اردو نے پوری دنیا میں اپنی بستیاں بنائی ہیںکہ دنیا کے کسی خطہ کا نام لے لیں، آپ یوروپ کے کسی ملک کا نام لے لیں۔یوروپ، انگلینڈ،امریکہ، کناڈا، جرمنی ،فرانس ہر جگہ سے آج اردو کے اخبارات شائع ہو رہے ہیں، اردو کی میگزین اور رسالے نکل رہے ہیں ۔ اور اردو کے بولنے والے اچھی تعداد میں وہاں موجود ہیں۔ مجھے جاپان جا کر یہ احساس ہوا کہ وہ لوگ جو غیر مقیم ہوتے ہیں اور جب یہ دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں تب انہیں اپنی تہذیب کی یاد زیادہ آتی ہے، جو زندگی انھوں نے اپنے وطن میں گزاری ہے وہ اسے تلاش کر تے ہیں اور اس تہذیبی تشنگی کو یہ اردو زبان سے ہی دور کرتے ہیں کیونکہ اردو زبان محض ایک رابطہ کی ہی زبان نہیں ہے بلکہ یہ اپنے اند ر پوری تہذیب سمیٹے ہوئے ہے۔آپ یہ دیکھیں کہ بنیادی طور پر اردو برصغیر کی زبان ہے تو اردو میں برصغیر کی تہذیبی، ثقافتی تاریخ تو سمائی ہی سمائی ہے لیکن برصغیر کے جتنے بھی مذاہب ہیں۔ مغلوں کے زمانہ میں ہندومذہب کی جتنی بھی کتابیں تھیں مہابھارت سے لے کر رامائن تک وہ سب کی سب اردو میں ترجمہ ہوئیں ۔اور وہ اس لیے ترجمہ ہوئیں کیونکہ مذہب دراصل تہذیب کا ایک بڑا حصہ ہے اور اسلام کی بات کریں تو عرب سے زیادہ برصغیر میں مسلمان بستے ہیں۔ اور برصغیر کے جو مسلمان اسلام کو سمجھتے ہیں ، ان کے لیے فکر کی، تفسیر کی ،قرآن کی مختلف تفاسیر اور کئی طرح کے مختلف مسائل پر کتابیں اردو میں منتقل ہو چکی ہیں۔تو برصغیر کی تہذیب کا اگر آپ احاطہ کرنا چاہیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں مذہب کو بھی دخل ہے، اس میں جو مختلف علاقوں کے رسم ورواج ہیں اس میں بھی دخل ہے۔تو میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ لوگ جو نئی بستیاں بساتے ہیں، ضرور وہ خالی اوقات میں کہیں نہ کہیں اپنی تہذیب سے اتنا مضبوط رشتہ رکھتے ہیں کہ خود کو اس سے الگ نہیں کر پاتے اور اس تشنگی کو دور کرنے کے لیے اخبار بھی کام آتا ہے۔مثال کے طور پر جاپانی کو ہی لے لیجئے، وہاں ہم نے دیکھا کہ وہاں 47 پریفیکچرس ہیں، دراصل یہ صوبے ہیں لیکن ان 47صوبوں میں سے پانچ سات صوبے ایسے ہیں جہاں پاکستان اور ہندوستان سے جانے والے لوگ زیادہ ہیں۔ اور ان چار پانچ صوبوں میں ان کی آبادی تقریباً 15-20 ہزار ہے۔لوگ بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے جو آبادی تھی وہ تقریباً ایک لاکھ کی تھی جن میں 15-20 ہزار وہ ہیں جو وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔اچھا جب بھی آپس میں ان کو کوئی تبادلہ خیال کرنا ہوتا ہے یا کوئی رابطہ کرنا ہوتا ہے تو یہ اردو نیٹ جاپان کو وہ خبریں بھیجتے ہیں یا کوئی انفارمیشن بھیجتے ہیں اور اس کو پابندی سے پڑھتے ہیں۔اسی طرح سے آسٹریلیا میں سڈنی سے عالمی اخبار نکلتا ہے۔ عالمی اردو اخبار کو اگر آپ مہینہ بھر پڑھیں تو آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا کہ عالمی اخبار کے بلاگ میں جو لکھنے والے لوگ ہیں وہ وہی لوگ ہیں جو وہاں بس رہے ہیں۔یا آس پاس کے علاقوں سے بسے ہوئے ہیں۔ تو وہ بلاگ میں اپنی تحریریں شامل کر کے بلاگ کی تحریریں پڑھ کر  دراصل وہ اپنی تہذیبی تشنگی کو دور کرتے ہیں جسے وہ Missکر رہے ہوتے ہیں۔اس اعتبار سے ہم نے دیکھا کہ اردو نیٹ اخبار نے ایک بڑا کام کیا کہ لوگوں کو متحد کیا اور گاہے بگاہے کوئی نہ کوئی پروگرام ہوتا رہتا ہے ۔ چونکہ جب یہ آپس میں ملتے جلتے ہیں تو اردو زبان میں گفتگو کرتے ہیں باقی جب وہ جاتے ہیں تو بیشتر حضرات وہ ہیں جنھوں نے وہاں کی زبانیں سیکھ لیں اور یہ ان کی ضرورت کی زبانیں ہیںجسے وہ صرف ضرورت کے تحت استعمال کرتے ہیں ۔ بہت سے حضرات ایسے بھی ہیں جنھوں نے وہاں شادیاں کر لی ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا جب آپ نے یہاں شادیاں کر لی ہیں تو آپ تو بہت ہی تہذیبی کشمکش سے گزر رہے ہوں گے ۔تو انھوں نے یہ بتایا کہ ہم نے شادیاں ضرور کی ہیں، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اردو پڑھیں، اردو سیکھیں تاکہ وہ اپنی تہذیب سے بیگانہ نہ رہیں۔اگر ہم نے ان کو اپنی تہذیب نہ سکھائی، اردو نہ سکھائی تویہ تو جاپانی ہو جائیں گے۔تو میں نے دیکھا کہ وہاں بہت سارے اسکول کھلے ہوئے ہیں، سینٹر کھلے ہوئے ہیں، جہاں ان لوگوں نے بچوں کی تعلیم کا انتظام کر رکھا ہے۔
کسی بھی اخبار کو نکالنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اردو نیٹ جاپان کے مالی وسائل کیا ہیں؟ اخبار کو چلانے کے لیے وہ تمام اخراجات کو کیسے مینج کر پاتے ہیں؟
آپ اردو نیٹ جاپان کودیکھیں یا عالمی اخبارکو کھول کر کے یا اردو ٹائمزجو نیویارک سے نکلتا ہے اس کو دیکھیں۔ یہ بھی دراصل امریکہ میں بسے لوگوں کا ہی ہے۔امریکہ سے تو کئی اخبارات نکلتے ہیں اور آسٹریلیا سے یہی عالمی اخبار ہے جو بہت بڑا اخبار ہے کنیڈا سے نکلتا ہے، جرمنی سے نکلتا ہے۔ اگر آپ ان تمام اخبارات کو دیکھیں ان میں آپ بہت سارے اشتہارات دیکھیں گے۔اردو نیٹ جاپان کی جب آپ ویب سائٹ کھولیں گے تو آپ کو پہلے ہی صفحہ پر 20-25 اشتہارات ملیں گے بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ملیں گے۔اور یہ سارے کے سارے اشتہارات وہ ہیں جو وہی لوگ دیتے ہیں جو پاکستان سے یا ہندوستان سے جا کر جاپان میں بزنس کر رہے ہیں۔ یہ اپنے کاروبار کے اشتہارات ان اخبارات کو دیتے ہیں اور انہی اشتہارات سے ان کو اتنی رقم مل جاتی ہے، کہ سر پلس ہو جاتا ہے۔ جو اخبار کی آن  لائن کاسٹ ہے ،اس سے بھی سر پلس ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بڑے بڑے پروگراموں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔یہ ان کا ملٹی میڈیا اخبار ہے۔ اس کے گرافکس بہترین ہوتے ہیں، رپورٹنگ بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔ اس اخبار کے مدیر اعلیٰ ناصرناگاکاوا دراصل خود ایک بڑے کارپوریٹ گھرانے میں ملازم ہیں، وہ ایک اچھے عہدہ پر فائز ہیں اور باضابطہ وہاں نوکری کرتے ہیں ۔ میں نے دیکھا کہ پورے جاپان میں کام کرنے کا ایک الگ ہی کلچر ہے ۔وہاں صبح 8بجے دفتر کھلتا ہے اور 6 بجے شام کو بند ہوجا تا ہے، چھٹیوں کا وہاں کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ ایک کلچر بن گیا ہے۔تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنا وقت کیسے نکالتے ہیں۔ تو انھوں نے کہا کہ میں نے مختلف ممالک میں اور خاص کر پاکستان کے مختلف صوبوں میں اپنے نمائندے بنا رکھے ہیں اور ان نمائندوں کا یہ کام ہے کہ وہ ہر روز رات میں وہاں سے مجھے خبریں بھیجتے ہیں اور وہ خبریںمیں فوراً منتخب کر کے آگے بھیج دیتا ہوں یعنی اپنے ویب ڈیزائنر کے پاس بھیجتا ہوں اور پھر یہ خبریں اپ لوڈ کی جاتی ہیں اور وہ باضابطہ ان نمائندوں کو پیسے بھی دیتے ہیں ۔تو ظاہر ہے یہ سارے پیسے اشتہارات سے ہی آتے ہوں گے ۔
جاپان میں جو اردو داں طبقہ ہے اسے اب وہاں کی شہریت مل گئی ہے، لیکن یہ لوگ وہاں پر غیر ملکی زبان بولتے ہیں تو ان کے تئیں سرکاری رویہ کیسا ہے، یعنی ان کے ساتھ کوئی تعصب تو نہیں برتا جاتا؟
میں نے یہ بات پوچھی ان سے کہ ایسا تو نہیں ہے کہ آپ نے جاپان میں آکر اپنے کلچرل سینٹر بھی کھولے ہیں ،مساجد بھی بنائی ہیں اور آپ لوگ گاہے بگاہے اتنی بڑی تعداد میں ملتے ہیں، وقتاً فوقتاً پروگرام بھی کرتے رہتے ہیں، تو آپ پرکوئی تعصب یا کسی طرح کا حکومتی دبائو تو نہیں ہوتا ۔تو انھوں نے کہا کہ یہاں حکومت کافی لبرل ہے اور ہمیں کبھی اس طرح کی پریشانی در پیش نہیں آئی۔ انھوں نے یہاں تک بتایا کہ آپ کو حیرت ہوگی کہ جاپان جیسے شہر میں جہاں لوگ بہت ہی الگ تھلگ رہتے ہیں، وہاں کی تہذیب و روایت یہ ہے کہ اگر آپ کے کوئی بڑے سے بڑے یا عزیز دوست یا رشتہ دار ہی کیوں نہ آ جائیں وہ لوگ ان کو اپنے گھروں پر نہیں بلاتے، یعنی آپ کا گھر جہاں ہے اس سے نزدیک جو ہوٹل ہوگا وہاں پر آپ کے قیام کا انتظام تو کردیں گے، لیکن گھر وں پر بلانے کا وہاں رواج ہی نہیں ہے اور بہت سے لوگ وہاں اس رنگ میں رنگ بھی گئے ہیں کہ اگر انہیں اپنے کسی دوست کو بلانا ہے یا ملنا ہے تو اسے بھی باہر کسی ریسٹورنٹ میں چائے پر دعوت دیں گے ورنہ فون پر ہی باتیں اور خیریت لیتے رہتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ ہم اس زندگی میں بس نہیں سکتے اس لیے ہم مہینے میں یا ہفتہ میں کوئی نہ کوئی پروگرام کرتے رہتے ہیں اور آپس میں ملتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہم ربیع الاول کے موقع سے ہی عید میلاد النبی کا جلوس بھی نکالتے ہیں۔مجھے بڑی حیرت ہوئی۔ اس جلوس کے لیے باضابطہ وہ حکومت سے اجازت لیتے ہیں اور وہاں کی پولس اس میں ان کی مدد کرتی ہے ، کس روڈ سے جانا ہے کیسے جانا ہے۔ تو بڑی تہذیبی زندگی ، بڑے منظم لوگ ہیں جاپان کے۔اگر انہیں جلوس کی اجازت ملتی ہے تو کیسے اور کہاں سے شروع کرنا ہے اور کہاں ختم کرنا ہے ، اور ا س سے عام لوگوں کو ہونے والی دقتوں کو ذہن میں رکھ کر کہاں اور کیسے انھیں منتشر ہو جانا ہے ۔ تو یہ سب سن کر کے ایسامحسوس ہوا کہ ابھی کسی طرح کا تعصب ان کے ساتھ نہیں ہے۔میں نے پوچھا کہ بھئی 9/11کے بعد آپ اتنی بڑی تعداد میں مسجدوں میں جاتے ہیں ، نماز ادا کرتے ہیں ، کیا اس کے کچھ اثرات یہاںمرتب ہوئے۔ تو انھوں نے کہا کہ ہاں 9/11کے بعد البتہ کبھی کبھی ہمارے اداروں پر نظریں رکھی جاتی تھیں ، لیکن الحمد اللہ یہاں کے لوگ بڑے سلجھے ہوئے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ کبھی اس طرح کی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ ہم تو صرف اپنی تہذیبی، مذہبی اور اقتصادی زندگی سے مطلب رکھتے ہیں اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
بیرون ممالک اور ہندوستان کے اندر اردو کے مستقبل کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
دیکھئے جو دوسرے ممالک میں اردو اتنی تیزی سے فروغ پا رہی ہے کہ اردو کا کلچر اور اردو کی نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں۔یہ دراصل ہندوستان میں رہنے والوں کو یہ حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ورنہ حقیقت تو یہی ہے کہ اتنا پھیلائو نہیں ہوتا اور پوری دنیا میں اردو کی نئی بستیاں آباد نہیں ہوتیں جس سے ایک طریقہ سے حوصلہ شکنی ہو جاتی اور ایک شکست خوردگی کا احساس ہوتا، کیونکہ بنیادی طور پر ہمارے ملک ہندوستان میں چند ہی صوبے تو ایسے ہیں جہاں باضابطہ اردو کی تعلیم کا نظم ہے۔جیسے بہار، مہاراشٹر آندھرا پردیش ان جگہوں کو چھوڑ دیں تو بنیادی سطح پر کہیں بھی ارد و کی تعلیم کا نظام ہی نہیں ہے ۔یہ تو فیڈر دراصل ہمارے مدارس ہیں جنھوں نے اردو کو زندہ رکھا اور اعلیٰ تعلیم میں بھی بیشتر بچے یہیں سے آ رہے ہیں۔ تو یہاں بھی ان تمام خامیوں اور تعصبات کے بعدکہیں نہ کہیں اردو اپنے دم خم پر زندہ ہے اور اپنا جلوہ بکھیر رہی ہے اور الحمد اللہ بکھیرتی رہے گی۔لیکن ہمارا جو اردوداںطبقہ ہے جنہیں اردو سے محبت ہے ، جنہیں اردو تہذیب سے محبت ہے، انہیں کوشش یہ کرنی چاہیے کہ جہاں جہاں موقع ملے ، اردو کے لیے کام کریں، اردو کو فروغ دیں۔اس کے لیے کچھ کام کریں۔ رہی بات دوسرے ممالک کی تو دیکھئے دنیا سمٹ رہی ہے باوجود اس کے لوگ ایک ملک سے دوسرے ملک بہت تیزی سے سفر کر رہے ہیں اور ہندوستان پاکستان جیسے ممالک میں دیگر ممالک کے مقابلہ اقتصادی مواقع بہت کم ہیں۔اس لیے ہندوستان اور پاکستان وہ ملک ہیں جہاں اردو بولی جاتی ہے اور یہاں کے لوگ بڑی تعداد میں دوسرے ممالک میں موجود ہیں، ورنہ آپ دبئی ، قطر جیسی جگہوں سے اردو اخبارات کے شائع ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ۔ قطر کا جو سالانہ عالمی سیمینار ہوتا ہے اس میں ہندوستان ، پاکستان کے بڑے ادیبوں کو مدعو کیا جاتا ہے اور انعامات سے نوازا جاتا ہے ۔اسی طرح صرف قطر میں ہی نہیں ۔ قطر تو خیر اس کے لیے بڑا مشہور ہو گیا لیکن کئی ممالک ایسے بھی ہیں جن میں جاپان کا بھی نام آتا ہے۔ ابھی میں جاپان گیا تو مجھے وہاں انعام دیا گیا ۔ اسی طرح سے سڈنی، جرمنی ، کناڈا میں کئی ممالک ایسے ہیں جو ایسی سالانہ تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں جہاں وہ اردو کے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اردو نے جب اپنے ملک سے باہر قدم نکالا ہے تو اسے وہاں فروغ حاصل ہو۔دیکھئے جہاں تک جاپان کی بات ہے میں نے وہاں جاپان یونیورسٹی کے ایک استاد ڈاکٹر عامر جو بنیادی طور پر پاکستان کے ہیں،سے ہماری  ملاقات ہوئی ، وہ اس شعبہ کے تنہا استاد ہیں۔ اس سے پہلے وہاں ایک جاپانی شہری تھے جنھوں نے اردو سیکھی اور باضابطہ وہ وہاں پروفیسر رہے جو اب رٹائر ہو چکے ہیںجن کا نام کتابو زی صاحب تھا۔ان کے بعد معین الدین عقیل صاحب آئے جو پاکستان کے بڑے دانشور ، نقاد ہیں ۔انھوں نے تقریباً پانچ سال تک اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کے جانے کے بعد انہی کے ایک شاگرد آئے  جنھوں نے پاکستان سے ہی تعلیم حاصل کی تھی، اور آج وہ وہاں اردو پڑھا رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے یہاں جاپان میں اردو پڑھنے والوں کی تعداد کتنی ہے اور یہ اردو کیوں پڑھی جاتی ہے ۔ تو انھوں نے کہا کہ یہ تعداد تشفی بخش ہے، ہمارے یہاں 20-25 سیٹیں ہوتی ہیں اتنے طلبا ہمارے پاس ہوتے ہیں، لیکن یہ وہ طلبا ہیں جو بنیادی طور پر صرف رابطہ کے لیے زبان پڑھتے ہیںنہ کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بلکہ ضرورت کے تحت یہ زبان پڑھتے ہیں۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ اگر یہ ضرورت کے لیے زبان پڑھتے ہیں تو ان کا مقصد کیا ہوتا ہے، اور یہ کہاں کھپتے ہیں اور ان کا کیا مستقبل ہوتا ہے کیونکہ ایک طالب علم اگر تین سال تک بی اے میں اردو پڑھتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ یہ ضرور دیکھے گا کہ اس کے روزگار کے مواقع کیا ہیں۔تو انھوں نے جو جواب دیا وہ متوقع تھا۔کیونکہ یہی سوال میں نے امریکہ میں جان ہاپکنس یونیورسٹی کے پروفیسر لاکھن سنگھ سے بھی پوچھا تھا جو وہاں اردو کے کو آرڈینیٹر ہیںاور اردو کے استاد بھی۔ انھوں نے وہی جواب دیا اور کہا کہ دراصل یہاں ان کی ضرورت کارپوریٹ اداروں میں پڑتی ہے ، کیونکہ ہندوستان اور پاکستان بڑی منڈی ہیں ، بڑا بازار ہے اور جاپان کا بالخصوص ان ممالک سے، خاص طور پر ہندوستان سے اور اردو زبان بولنے والے ممالک سے بہت اقتصادی روابط ہیں۔ بہت سی کمپنی ایسی ہیں جہاں ہمیں ضرورت پڑتی ہے ۔تو ہمارے یہاں کے جو اسٹوڈنٹ جاتے ہیں یا ہمارے یہاں کے جو طلبا نکلتے ہیں یا تو وہ بڑے بینکوں میں جاتے ہیں، یا بڑے کارپوریٹ اداروں میں جاتے ہیں یا پھر ایجنسیوں میں جاتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر ملک کی اپنی اپنی ایجنسی ہے ، اور وہ ممالک جو زیادہ ترقی یافتہ ہیں ،انہیں جن جن ممالک سے رابطہ پڑتا ہے ان کی زبان وہ پڑھاتے ہیں۔تو انھوں نے بتایا کہ وہاںلوگ صرف ضرورت کے مطابق اردو پڑھ رہے ہیں، نہ کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے ۔یہی صورتحال امریکہ کی بھی ہے۔ امریکہ کے بیشتر صوبوں میں اردو پڑھائی جاتی ہے۔ صرف شکاگوایسی جگہ ہے جہاں اعلیٰ تعلیم کا نظام ہے ورنہ ہر جگہ وہ اردو کو ضرورت کی زبان کے طورپر سیکھتے ہیں۔تو لاکھن سنگھ نے بھی یہی بتایا تھا کہ یہ زبان سے محبت کے طور پر نہیں سیکھتے یہ ان کی ضرورت ہے ، اور اردو زبان پڑھ کر یہ ان علاقوں میں ڈپیوٹ ہوتے ہیں ۔لہٰذاضرورت کے لیے یہ زبان وہاں پڑھی جا رہی ہے۔ امریکہ جیسا ملک وہاں دنیا کی تمام زبانیں پڑھی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ لوگ ان زبانوں پر زیادہ زور دیتے ہیں جن سے ان کے روابط ہیں۔اسی طرح سے جاپان میں ان زبانوں پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے جن ممالک سے ان کے روابط رہے ہیں یا ہیں۔تو یہ ملی جلی صورتحال ہے۔ خوا وہ ضرورت کے لیے پڑھی جا رہی ہے ، یا اپنی تہذیب کے تحفظ کے لیے پڑھی جا رہی ہے۔بہر کیف یہ زبان آگے بڑھ رہی ہے اور یہ بڑھتی رہے گی۔ جاپان میں جا کر مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ اردوبولنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے ۔جیسے مان لیں جن لوگوں نے جاپان کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ظاہر ہے ان کے بچے، ان کی بیوی، اردو کے الفاظ، اردو کی بول چال کو فروغ دے رہے ہیں۔اور وہاں کی نئی آبادی اردو کے حوالہ سے بڑھ رہی ہے۔ دراصل ہمیں جہاں اردو کی نئی بستیاں ہیں وہاں اردو کو اسی عینک سے دیکھنا پڑے گا ، اسی نقطۂ نظر سے دیکھنا پڑے گا۔ ہمارے یہاں جواردو ہے چونکہ ہمارے ملک کی زبان ہے ، ہماری اپنی زبان ہے۔ یہاں اس کو دیکھنے کا نظریہ دوسرا ہونا چاہیے اور ان ممالک میں جہاں نئی بستیاں اردو کی ہیں وہاں اس کو دیکھنے کا نظریہ دوسرا ہونا چاہیے۔

Top of Form

Bottom of Form

Leave a Reply