تصوف پسند ادب کی اہمیت و افادیت : دور حاضر کے تناظر میں
صبا صبوحی
زندگی تغیر پزیر ہے اور تغیر و تبدل ارتقا کا ضامن ہوتا ہے۔ جب سے انسان کی ہستی عالم وجود میں آئ تب سے لے کر اب تک تغیر و تبدل کا یہ عمل مسلسل جاری و ساری ہے۔ اردو ادب بھی اس متغیر اور متبدل زندگی کی ترجمانی اسی برابری کے ساتھ کرتا رہا۔ ادب اور زندگی ایک دوسرے کے بدلاو کی عکاسی اپنے ابتدائی زمانے سے کرتی آئی ہے۔ ادب کا عکس زندگی پر اور زندگی کا عکس ادب پر صاف دیکھا جا سکتا ہے۔جیسے جیسے زندگی میں تغیر و تبدیلی آئ ویسی ہی تبدیلی ادب میں بھی آتی گئ اور پھر ادب اورزندگی ساتھ ساتھ چلنے لگے۔دراصل ادب میں مقصدیت کا دخل بھی یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ حالانکہ مقصدیت اپنے ابتدائی دور سے ادب میں بطور تفنن طبع شامل رہا لیکن اس وقت تک ادب،معاشرہ یا عام زندگی کا آئینہ کم، مافوق الجہان کا آئینہ دار زیادہ تھا۔ باوجود اس کے ادب میں جب معاشرے سے تعلق عام زندگی کی عکاسی کی بات آئی تو مقصدیت کے طور پر صرف اور صرف ایک معاشرے کی اصلاح اور بہترین معاشرے کی تعمیر،مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔ ادب زندگی کا رفیق تو بنا لیکن اس کی رفاقت میں صرف مسائل سے سناشائ حاصل ہوئ۔لیکن کیا صرف مسائل کو جان لینے سے ان کے حل نکل جاتے ہیں؟ مسئلوں کے حل کے لے ان کی جڑوں میں جانا پڑتا ہے-اور اس لئے بہت پہلے سے یہ اواز اٹھائ جا رہی ہے کہ ادب کے ساتھ تصوف کا سنجیدہ رابطہ ہونا چاہئے۔میں اس بات سے متفق ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ میری بات سے اتفاق نہ کریں اور سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ادب میں تصوف کو بڑھاوا دینا گویا ادب میں اسلامیات کا فروغ ہے جبکہ ادب کو کسی مذہب کے دائرے میں قید نہیں کیا جانا چاہئے۔لیکن پھر ایک سوال یہاں میںکرنا چاہوں گی کہ وہ سارے فرائض و قوانین جو مذہبِ اسلام سے جڑے ہیں اگر انہیں لفظِ اسلام سے ہٹا کر دیکھا جاے تو کیا اس کا دوسرا نام مذہبِ انسانیت نہ ہوگا؟
خیال رہے کہ مذہب میں اگر معاشرتی اقدار شامل ہوں تو روحانیغذا کو تسکین ملتی ہے-لیکن مذہب کی گرفت اگر ڈیھلی پڑ جائے تو پورا معاشرہ مادیت کے طوفان کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ انسان کے اندر سے خیر و شر کی تمیز کا مٹ جانا ہے۔آج انسانیت اس موڑ پہ کھڑی ہے جہاں انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر مادیت پرستی کے طوفان میں روحانیت کھوکھلی ہو چکی ہے-جدید اور ترقی یافتہ دنیا جس قدر scientific ترقی کر رہی ہےاسی قدر بے راہ روی اور بدکاری کا پیروکار بن کر اخلاقی قدروں کو پامال کرتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ اج کا مہذب اور تعلیم یافتہ انسان حیوانوں سے بدتر غیر اخلاقی طرزِ زندگی جینے پہ مجبور ہو گیا ہے۔بے دینی بد دیانتی اور اس سے بھی بڑھ کر انسانی قدروں کے خلاف جاکر انسانیت کی روح مفلوج ہو کر رہ گی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اج بین الاقوامی سطح پر انسان منافرت ، بے یقینی ، شکشت خوردگی کا شکار نظر آتا ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ جس اشرف المخلوقات کو دنیا میں خلافت کے لئے بھیجا گیا تھا، وہ آج بے مقصدیت کی زندگی گزار رہی ہے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اخلاق مذہب کا دین ہوتا ہے اور اولیاء و صوفیاء نے بھی اخلاق کو ہی تصوف کی بنیاد قرار دیا ہے۔
مذکورہ نکات کے ضمن میں بات کی جائے تو ہمارے معاشرے میں انسانیت کو جو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے وہ ہے مغربی تہذیب کا بے پناہ طوفان۔ جس نے ہر شہر ہر ملک کو اپنے حلقہء دام میں لے رکھا ہےاور یہ ساری باتیں ہماری اپنی تہذیب کے موت کی ضمانت بھی دیتی ہیں۔ عرض کرتی چلوں کہ یہاں میرا مقصد حضرت انسان کو مادی آسائشوں سے کنارہ کشی اختیار کرنے کی ترغیب دینا نہیں بلکہ اس نکتہ کی جانب توجہ مبذول کرنے کی ہے کہ اسلام مادی ترقی پر بھی اسی طرح زور دیتا ہے جس طرح روحانی ترقی پر زور دیتا ہے ۔ قرانِ پاک نے اعلان کر دیا کہ “جو شخص اپنی دنیا نہیں سنوار سکتا وہ دین بھی نہیں سنوار سکتا”
غور کرنے والی بات یہ ہے کہ یہاں دنیا سنوارنے کی جو تلقین ملتی ہے وہ کسی فرد کی ذاتی دنیا نہیں بلکہ یہ دنیا اس کے گرد و نواح کی دنیا ہے۔دیکھا جائے تو یہاں حقوق العباد کا وہتصور بھی سامنے آتا ہے جس کو ادب نے گاہے بہ گاہے تحریک و رجحانات کے ذریعہ پورا کرنے کی کوشش کی ہے- اب ایسے میں سوچنے والی بات یہ ہے کہ جہاں ذاتی،انفرادی ، بین الاقوامی مسائل کا حل ایک جگہ موجود ہو تو کیوں نہ اس راہ کو اختیار کر لیا جائے۔تصوف کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دنیاوی ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر کنارہ کشی اختیار کر لیا جائے بلکہ تصوف تو انسانیت کی فلاح کے لئے انسانیت پر مبنی ایک معاشرہ چاہتا ہے۔البتہ دیگر معاشرے مطالبۂ حقوق پر قائم ہوتے ہیں جبکہ تصوف پسند معاشرہ ایتأ حقوق پر مبنی ہوتا ہے۔غور طلب ہے کہ مذہب اسلام کے بنیادی ستون میں شامل ذکوة و صدقات کا عمل یوں تو مذہبی ہے لیکن ان کی ادائگی کا عمل سماج کو کئی طرح کی اسانیاں فراہم کرتا ہے۔
اگر تصوف کو صرف اسلام سے ہی جوڑ دیا جائے تو بھی میں کہوں گی کہ اسلام مادی ترقی کے خلاف قطعاً نہیں ہے۔بلکہ اسلاماخلاقی قدروں کے دائرے میں رہ کر مادی ترقی پر زور دیتا ہے اور اسکی اخلاقیات نے ہر خیر و شر کا فرق واضح کر دیا ہے۔گھریلو حقوق کے ساتھ ساتھ معاشرے کے بھی حقوق قائم کئے اور سب سے بڑھ کر ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمّت دی۔
لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ آج معاشرے میں جتنی خرابیاں، غلط رسومات کو اپنانے اور اخلاق کو پس پردہ ڈال دینے کی وجہ سے پیدا ہوئ ہیں،اتنی ہی مغربی روش کے اختیار میں بے جا اسراف کا نتیجہ بھی ہے۔ مذہبی اور تہذیبی اخلاقیات کو پسِ پردہ کرنے کے نتیجے میں آج پورہ معاشرہ افراط و تفریط کا شکار نظر آتا ہے۔اپ انسانیت کی روح کو تب تک نہیں جھنجھوڑ سکتے جبتک اسکا ضمیر زندہ نہ ہو اور ضمیر کا زندہ ہونا، روحانیت پر منحصر ہے نہ کہ جھوٹی ترقی پر۔ جب تک ہر فرد اپنے معاشرے کے بنیادی حقوق سے واقفیت حاصل نہیں کر لیتا تبتک ترقی نا ممکن ہے۔اور اس حقوق سے واقفیت درس انسانیت کے بغیر حاصل نہیں کیے جا سکتے البتہ تصوف کی تعلیمات پر درس انسانی کی حصولیابی قدرے آسان ضرور ہے۔ اب اس بات پر غور کریں کہ کسی معاشرے کا اپنا کوئ اخلاقی معیار نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کسی مذہب کے اقدار کی پیروی نہ کر لے۔اگر معاشرے میں اخلاقی قدروں کی آمد کا ذریعہ مذہب ہے تو مسائل کے دفاع کا ذریعہ مذہب کیوں نہ ہو جبکہ معاشرہ خود مذہب کی دین ہے۔
یہ تو تھی تصوف کی معاشرتی اور مذہبی اہمیت ۔ اب اگر تصوف کی ادبی اہمیت کی بات کریں تو بھی تصوف ادب کے دیگر مکتبۂ فکر کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑا نظر آتا ہے۔ تصوف کا موازنہ اگر فلسفے سے کیا جاے تو دونوں میں ایک بات مشترک وہ یہ ہے کہ دونوں حیات و کائنات کے اسرار کو سمجھنے پر زور دیتے ہیں ۔ فلسفے اور تصوف کے ذکر کے ساتھ قرةالعین حیدر اور علامہ اقبال کا ذکر بھی ناگزیر ہو جاتا ہے اور ان دونوں ہی ادبی شخصیات کی تصانیف کی افاقیت سے انکار کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ جہاں قرةالعین حیدر جیسی بین القوامی سطح کی ادیبہ ادب میں تصوف کی حامی رہیں ہیں وہیں علامہ اقبال اور دیگر مایہ ناز شعرأ نے بھی تصوف کے رنگ سے اپنی شاعری کو اراستہ کیا ہے۔علامہ اقبال کی ایک بات مجھے بہت اچھی لگتی ہے کہ وہ بات تو خودی کی کرتے ہیں لیکن زور انفرادیت پر دیتے ہیں۔ مگر انکا یہ ایک فرد پورے معاشرے کی رہنمائ و پیشوائ کرتا نظر اتا ہے۔ انہوں نے ایک فرد کو مخاطب کر کے پوری قوم، پورے معاشرے کو جھنجھوڑنے کا کام کیا ہے۔
دلچسپ اور نکتے کی بات یہاں یہ بھی ہے کہ ایک عظیم فن پارے کی بنیاد میں بھی مذہب یا مذہبی اقدار کی شمولیت کس قدر اہمیت رکھتی ہےکہ ہمارے سامنے Paradise Lost اور مہابھارت جیسی مثالیں سامنے آتی ہیں۔ دیکھا جائے تو مذہبی اقدار، روحانیت یا تصوف کے بغیر کوئ عظیم تخلیق یا فن پارے کے وجود میں آنے کے امکانات کس قدر کم نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملٹن کی paradise lost, ملک محمد جائسی کی پدماوت، تلسی داس کی مہابھارت کو ہی لی لیجئے، سب کی بنیاد مذہب پر ہے۔مولانا مودودی کی پردہ،شبلی کی سیرة النبی ،نذیر احمد کی توبتہ النصوح سب کی سب مذہبی اقدار سے مزین تصانیف ہیں۔کہنا یہ ہے کہ مذہبی اقدار اور روحانیت کے بغیر نہ کوئ عظیم ادب وجود میں اتا ہے نہ پروان چڑھتا ہے۔
صوفیاء نے بھی ادب کے فروغ میں کوئ کم کام نہیں کیا “معراج العاشقین”جو دکنی ادب کی سب سے پہلی کتاب ہے اور امیر خسرو جو کہ بانیٔ غزل کہے جاتے ہیں ان کی کلاسکی اور متصوفانہ شاعری کا الگ ہی رنگ ہے۔ان کی شاعری میں جہاں رومانییت کی جھلک ملتی ہے وہیں روحانیت کا احساس اور سماجی اقدار کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ اس لئے یہ گمان کرنا کہ تصوف کے ساتھ سنجیدہ رابطہ ادب کو “ادب براےء ادب” کے زمرے سے نکال دے گا غلط ہے۔ تصوف کے رنگ کی کئی جہت ہیں۔ نہ تو یہ ادب کی مقصدیت سے پرے ہے اور نہ ہی ادب کی ہئیت سے۔ ادب ہر حال میں زندگی کی عکاسی کرتا نظر اتا ہے۔ وہ اپنا مقصدبراہ راست یا بلا راست، دونوں طرح سے قاری تک پہنچا دیتا ہے۔ چاہے اس کے لئے سنجیدہ افسانوں ، نظموں کا سہارا لیا گیا ہو یا طنز و مزاح کا راستہ اپنایا گیا ہو۔ مقصدیت بہرحال غالب رہی ہے۔اور تصوف کا مقصد بھی ادب کو اس کی مقصدیت سے دور لے جانا نہیں بلکہ اور قریب کرنا ہے۔
تصوف فتوی پر نہیں بلکہ تقوی پر زور دیتا ہے اور تقوی انسان کو کسی ایک مذہب کے دائرے سے نکال کر حلقۂ انسانیت میں داخل کر دیتا ہے۔ادب اور تصوف کے باب میں اخلاقی قدروں کو از سرِ نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔تبدیلیٔ زمانے کے ساتھ انسانی حال و احوال میں جو تبدیلیاں آئی ہیں، وقت کے تقاضوں کے پیشِ نظرادب میں بھی ان کی تجدید ممکن ہے۔
’’مضمون نگار جدید لب و لہجہ کی شاعرہ ہیں‘‘