ڈاکٹر مہوش نور
اصل نام: بیگم اختر جمال
قلمی نام: بیگم اختر جمال
پیدائش: 22مئی1930،بھوپال
وفات: 9 فروری 2011 آٹوا(کینیڈا)
بیگم اختر جمال کی ولادت 22مئی1930کو بھوپال میں ہوئی۔ والد محمود الحسن صدیقی “ظل السلطانی” کے مدیر تھے۔ کہانیاں اور مضامین لکھتے تھے۔ والدہ “امہات” کی مدیرہ تھیں۔ کہانیاں لکھتی تھیں ان کی امی اور ابو دونوں کی کہانیاں ادبی رسالوں میں شائع ہوتی تھیں۔
ان کے دادا صاحبِ دیوان شاعر تھے۔ ان کی آپ بیتی “وہ بھی زبانی پری” کے مطابق حمیدیہ کالج بھوپال میں داخلہ لیا تھا۔ یعنی ابتدائی تعلیم بھی بھوپال میں ہوئی تھی۔ ابھی وہ بی اے تک پہنچی ہی تھیں کہ ان کی شادی ہوگئی۔ پاکستان چلی آئیں۔
بچوں نے عہد شباب کی منزل پر قدم رکھا تو پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا اور پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی ۔ ایم اے کی ڈگری ملتے ہی گورنمنٹ کالج راولپنڈی میں ملازمت مل گئی۔ راولپنڈی سے ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین گجرات میں ہوا۔
گجرات سے گورنمنٹ گرلز کالج ایٹ آباد آگئیں۔ وہاں سے گورنمنٹ کالج برائے خواتین اسلام آباد سے 30سال بعد ریٹائر ہوگئیں۔ بیگم اختر جمال نے بہت چھوٹی عمر میں تخلیقی دنیامیں قدم رکھا تھا۔ آپ کا پہلا افسانہ ‘پیاسی دھرتی’ قدوس صہبائی کے ادبی پرچے’انصاری’ میں 1945 میں شائع ہوا۔آپ انجمن ترقی پسند مصنفین،بزم علم و فن،سلسلہ اور رابطہ جیسی ادبی تنظیموں سے وابستہ رہیں۔آپ کے شوہر احسن علی خان بھی ایک عمدہ شاعر تھے۔ گھر کا ماحول چونکہ ادبی تھا اور ماں باپ بھی ادبی شخصیات تھے اس لیے انھیں ابتدائی عمر میں اچھی کتابیں، اچھی باتیں اور اچھے لوگ ملے۔
جگر، ساغر، روشن صدیقی اور احسان دانش کی شفقت اور رہنمائی ملی ان کے والد نے انھیں ٹالسٹائی کی کہانیاں اور ناول پڑھنے کو دیے۔ پریم چند اور راجندرسنگھ بیدی کے افسانے دل میں گھر کرنے لگے۔ گھر میں ترقی پسند تحریک کی روشنی، اختر جمال کو عمر کے ابتدائی حصے کیسی کیسی نعمتیں ملیں۔
بیگم اختر جمال نے 9 فروری 2011 آٹوا(کینیڈا) میں وفات پائی اور وہیں کارپ قبرستان میں دفن ہیں۔وہ ایک عرصے سے کینیڈا کے دارالخلافہ آٹوا میں قیام پذیر تھیں۔
ایک قابل توجہ بات ہے کہ جس عمر میں لڑکیاں ڈائجسٹ پڑھتی ہیں اس عمر میں اختر صاحبہ ٹالسٹائی اور گورکی کی تحریروں سے لطف اندوز ہوتی تھی۔ ان تصانیف کی فہرست درج ذیل ہیں۔۔۔
۔ پھول اور بارود، ناول جنگ عظیم کے پس منظر میں لکھا گیا،1967
۔انگلیاں فگار اپنی(افسانے)، 1971
۔زرد پتوں کا بن (افسانے) دوایڈیشن شائع ہوئے، 1981
۔سمجھوتہ ایکسپریس، افسانے ترقی پسند فکر کی غماز ہے، 1989
۔خلائی دور کی محبت(افسانے)، 1991
۔ہری گھاس اور سرخ گلاب (خاکے)، 1992
بیگم اختر جمال کے متعدد افسانوں کے ترجمے دوسری زبانوں میں شائع ہو کر پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔
بیگم اختر جمال کی تحریروں کا مزاج اور ان کا معیار ان کے اس جملے سے واضح ہوجاتاہے۔ وہ لکھتی ہیں
“میں سمجھتی ہوں قلم کی عصمت عورت کی عصمت سے زیادہ نازک ہوتی ہے اور ایک لکھنے والوں کا فرض یہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنے قلم کی عصمت کی حفاظ کرے۔ جب ایک لکھنے والا لالچ یا شہرت کے لیے قلم اٹھاتاہے تو وہ قلم کی ہتک کرتاہے۔”
بیگم اختر جمال کا ذکر نامکمل رہ جائے گا اگر ان کے ساتھ ان کے مرحوم شوہر احسن علی خاں کا ذکر نہ کیاجائے جو بیگم اختر جمال کو فعال اور متحرک رکھنے والی قوت تھے۔ احسن علی خاں نے بھی اپنی تخلیقات سے تخلیقی دنیا میں اپنی پہچان بنائی ہے۔
ان کی تصنیفات یہ ہیں “میں محسوس کرتاہوں، میں سوچتاہوں(شعری مجموعہ)، شعلہ جاں(دوسرا شعری مجموعہ وفات سے ایک ہفتہ قبل1991)ہارڈز کے ناول فریڈم روڈ کا ترجمہ ، آزادی کے بعد، بہت مقبول ہوا تھا۔ فیض احمد فیض کے ایما پر ترکی کے شاعر”یونس ایمرے” کا شعر ی ترجمہ آرسی ڈی نے شائع کیا تھا۔