ایک شکوے کی تردید(نظم)
ڈاکٹر خالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
اگرچہ عید کا دن تھا مگر خوشیاں ندارد تھیں
قبیلے کے سبھی حساس لوگوں کی طرح میں بھی خود اپنے آپ سے بیزار بیٹھا تھا
بس اک بے ساختہ حرفِ شکایت منہ سے نکلا تھا کہ رنگ و بو سے خالی عید کوئی عید ہوتی ہے؟
مگر اتنے سے شکوے پر زمین و آسماں سارا مخالف ہو گیا میرا
چہار اطراف سڑکوں پر ہزاروں زخمی تلووں کے لہو نے مجھ کو یہ طعنہ دیا دیکھو کہ مہندی عید کی ہے یہ
دہکتے، آگ اگلتے راستوں پر ایک عورت چلتے چلتے خون میں لت پت ہوئی اور ماں بنی، پھر چل پڑی یوں ہی
ٹپکتے خوں کے قطروں سے صدا آئی
کبھی بھی عید رنگ و بو سے خالی ہو، یہ ہرگز ہو نہیں سکتا
ان آوازوں سے مجھ پر ایک جھلاہٹ سی طاری تھی
فضا میں ایک چیخ ابھری
مری ہی چیخ تھی، لیکن مرے قابو سے باہر تھی
مراشکوہ مرے لب پر بغاوت بن کے ابھرا تھا
مری چیخیں یہ کہتی تھیں کہ عید ایسی نہیں ہوتی
نہاتے ہیں، نئے کپڑے پہنتے ہیں، سیوئیاں، شیر کھاتے ہیں، سبھی مل کر نمازِ عید پڑھتے ہیں، گلے مل کر مبارک باد دیتے ہیں
مری چیخوں کا کہنا تھا کہ اب کی عید میں ایسا کہاں کچھ ہے؟
مگر میری بغاوت سے زیادہ تیز چیخیں ہر طرف میرے خلاف اٹھنے لگیں پھر سے
صدا آئی
نہایا عید میں کس نے نہیں آخر؟
قبیلے کے سبھی حساس لوکوں کی طرح تم بھی تو اشکوں میں نہائے تھے
بتاؤ کون ہے جس نے نئے کپڑے نہیں پہنے؟
اداسی میں سبھی ملبوس تھے اس دن
غم و اندوہ کی شیرینیاں کس نے نہیں کھائیں؟
کوئی بھی عید گہ ویراں نہیں، آبادیاں زاغ و زغن کی سب میں قائم تھیں
چہار اطراف بھوک اور موت جم کر ابن آدم سے گلے ملتی رہی دن بھر
سو اب بے جا شکایت بند بھی کر دو کہ رسمیں عید کی ساری ادا کر دی گئیں۔۔۔ساری
٭٭٭