’’اردو کی شعری اصناف‘‘
گورنمنٹ ڈگری و پی جی کالج حسینی علم میں دو روزہ قومی اردو سمینار
رپورتاژ: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
ہندوستان میں ماہ فروری اور مارچ ان دنوں اردو سمیناروں کے انعقاد کا موسم سمجھے جانے لگے ہیں۔قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کی جانب سے ملک بھر میں اردو زبان کی ترویج اور فروغ کے لیے حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور ملک بھر کی جامعات‘سرکاری کالجوں اور رجسٹرڈ اردو تنظیموں کو درخواست دینے پر اردو سمینار منظور کئے جارہے ہیں جس کے لیے خاطر خواہ رقم دی جارہی ہے اور ان سمیناروں سے جہاں یونیورسٹی اور کالج اساتذہ کی تدریسی ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے وہیں مختلف ادبی‘تحقیقی و تنقیدی موضوعات پر مبنی ان قومی سمیناروں سے مقالات کی شکل میں اردو زبان و ادب سے متعلق بیش قیمت مواد مباحث کے لیے پیش ہوتا ہے اور اگر ان مقالوں کو کتابی شکل دی جائے یا سوونیر کی شکل میں شائع کیا جائے تو اردو زبان و ادب کے ذخیرے میں اضافہ ہوگا۔ حیدرآباد میں قدیم شہر کا ایک اہم کالج گورنمنٹ ڈگری و پی جی کالج حسینی علم ہے۔یہ کالج لڑکیوں کی تعلیم میں نمایاں خدمات انجام دے رہا ہے۔ اس کالج میں نظام دور حکومت کی خورشید جاہ کی دیوڑھی اور اس سے متصل وسیع و عریض اراضی پر نئی عمارت میں آرٹس سائنس و کامرس کے ڈگری و پی جی کورسز انگریزی اور اردو میڈیم میں پڑھائے جاتے ہیں۔ اس کالج کی موجودہ پرنسپل ہربنس کور ہندی لیکچرر ہیں۔ جب کہ اردو کی نامور محقق و نقاد ڈاکٹر عسکری صفدر حال ہی میں اس کالج سے بہ حیثیت پرنسپل وظیفہ پر سبکدوش ہوئی ہیں اور ان کی قیادت میں کالج نے NAACمعائنے میں Bگریڈ حاصل کیا ہے۔ اس کالج کے صدر شعبہ اردو فعال شخصیت ڈاکٹر محمد عبدالقدوس ہیں جو نا مساعد حالات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر اردو تک ترقی کرتے ہوئے اردو میڈیم طلباء کے لیے ایک مثال ہیں وہ کالج میں آئے دن فروغ اردو کی سرگرمیاں کرتے رہتے ہیں جب انہیں قومی کونسل کی جانب سے اردو سمینار منظور ہوا تو انہوں نے اپنے اساتذہ اور دوست احباب کے مشورے سے فوری سمینار کے انعقاد کا اعلان کیا۔ سمینار کا موضوع اردو کی شعری اصناف رکھا گیا۔ دوروزہ قومی اردو سمینار کالج کے سرسید حال میں22اور23مارچ کو منعقد ہوا۔ 22مارچ کو صبح سے ہی کالج میں مہمانوں ‘اساتذہ کرام اور ریسرچ اسکالرز کی پرانے شہر کے اس مشہور کالج میں آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈاکٹر محمد عبدالقدوس نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے مہمانوں کی کالج تک پہونچنے میں رہبری و رہنمائی کی۔ افتتاحی اجلاس کا آغاز صبح دس بجے کالج کی طالبات کے ترانے سے ہوا۔ یہ دو روزہ سمینار قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کے اشتراک سے منعقد ہوا۔ سمینار کے مہمان خصوصی پروفیسر مظفر علی شہ میری وائس چانسلر مولوی عبدالحق یونیورسٹی اے پی تھے۔ جنہوں نے کلیدی خطبہ بھی دیا۔ سمینار کے مہمانان اعزازی جناب رحیم الدین انصاری صاحب صدرنشین تلنگانہ اردو اکیڈیمی‘جناب نعمان صاحب صدرنشین اے پی اردو اکیڈیمی‘پروفیسر محمد ظفر الدین ڈائرکٹر شعبہ ترجمہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی‘ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی‘پروفیسر فضل اللہ مکرم شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد‘ڈاکٹر مسرت جہاں اسسٹنٹ پروفیسر اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد‘ محترمہ قمر جمالی نامور افسانہ نگار‘ محترمہ نفیسہ خان نامور ادیبہ اور جناب مختار احمد فردین صدر اردو پیس سوسائٹی حیدرآباد تھے۔ ڈاکٹر محمد عبدالقدوس کنوینر سمینار نے مہمانوں ‘اساتذہ ریسرچ اسکالرز اور شرکائے سمینار کا خیر مقدم کیا۔ اور حسینی علم ڈگری و پی جی کالج میں چل رہی اردو سرگرمیوں اور تعلیمی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان اور تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی سے اظہار تشکر کیا کہ شہر اردو حیدرآباد کے اس قدیم کالج میں اردو سمینار کے انعقاد کا موقع فراہم کیا۔ ڈاکٹر مسرت جہاں نے اپنے خطاب میں اردو شاعری کی مختلف اصناف کی اہمیت بیان کی اور کہا کہ شعرائے اردو نے ہئیت کے مختلف تجربے کرتے ہوئے اظہار خیال کے پیمانے بنائے جس پر اردو شاعری کا کارواں سفر کر رہا ہے۔پروفیسر محمد ظفر الدین اردو یونیورسٹی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو کی شعری اصناف موضوع پر سمینار منعقد کرنا خوش آئند بات ہے کیوں کہ ان دنوں ہر کوئی نثر اور فکشن پر بات کر رہا ہے اور شاعری کے فنی تقاضوں سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کی جانب توجہ نہیں دی جارہی ہے انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ سمینار کالج کی طالبات کے لیے اردو شاعری کی مختلف اصناف کے فنی تقاضوں سے واقفیت کا موقع فراہم کرے گا انہوں نے کالج کی طالبا ت کو مشورہ دیا کہ وہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے پی جی کورسز میں داخلہ لیں اور اردو سے اعلی تعلیم کے مواقع سے استفادہ کریں۔ محترمہ قمر جمالی نے سمینار کے انعقاد کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ ہر زمانے میں شاعری عوام میں مقبول رہی ہے اور غزل نے اپنے اظہار کی قوت سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل شعری جہات سے واقفیت رکھے اور اظہار خیال کی کوشش کرے۔ ڈاکٹر معید جاوید صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے کنوینر سمینار اور کالج انتظامیہ کو مبارکباد دی کہ پرانے شہر کے اس قدیم کالج میں اردو کا قومی سمینارکا انعقاد خوش آئیند بات ہے۔ انہوں نے کالج کی طالبات کو مشورہ دیا کہ وہ اس سمینار کے مختلف اجلاسوں میں پیش ہونے والے مقالوں سے استفادہ کریں اور خود بھی تحقیقی مضامین لکھنے کی کوشش کریں۔ ڈاکٹر فضل اللہ مکرم پروفیسر یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کالج کے انتظامیہ اور طالبات کو مبارک باد دی کہ اس سمینار کے حوالے سے ان کے ہاں ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر مظفر شہ میری‘ دو دواردو اکیڈیمیوں کے صدور نشین‘مختلف جامعات کے اساتذہ ‘نامور فکشن نگار قمر جمالی اور نفیسہ خان جیسی شخصیات موجود ہیں انہوں نے طالبات کو مشورہ دیا کہ آج بات کرنے تو سب کو آتا ہے لکھنا نہیں آتا انہوں نے کہا کہ اگر ہم لکھنے کی کوشش کریں تو اچھے افسانہ نگار‘انشائیہ نگار ادیب اور شاعر بن سکتے ہیں ۔ انہوں نے سمینار کے انعقاد پر عبدالقدوس اور دیگر کو مبارکباد پیش کی۔ ڈاکٹر عسکری صفدر سابق پرنسپل حسینی علم ڈگری کالج نے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا کہ اس سمینار میں انہوں نے آکر طالبات کی حوصلہ افزائی کی۔ انہوں نے کہا کہ حسینی علم ڈگری کالج میں ایم اے اردو کا شعبہ فعال ہے اوراس کالج سے کئی ہونہار طالبات نے اردو تعلیم حاصل کی ہے۔جناب مختار اہم فردین نے کہا کہ کالج کی طالبات کو کئی مرتبہ اردو رتن ایوارڈ دیا گیا ۔اور امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں بھی کالج کی طالبات مزید ترقی کریں گی۔ اور اردو ماس سوسائٹی فار پیس ان کی حوصلہ افزائی کرے گی۔جناب رحیم الدین انصاری صاحب صدر نشین تلنگانہ اردو اکیڈیمی نے کہا کہ اردو اکیڈیمی فروغ اردو کی مختلف اسکیمات پر عمل کر رہی ہے۔ اوروہ اردو زبان کے فروغ کی پابند ہے انہون نے سمینار کے انعقاد پر کالج انتظامیہہ کو مبارکباد پیش کی اور کالج کی طالبات کو مشورہ دیا کہ وہ محنت اور استقلال سے علم حاصل کریں گی تو انہیں کامیابی کی شکل میں اچھے نتائج حاصل ہوں گے۔ پروفیسر مظفر علی شہ میری وائس چانسلر اے پی اردو یونیورسٹی نے اپنے کلیدی خطبے میں سمینار کے موضوع اردو کی شعری اصناف کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ انہوں نے شاعری کی مختلف اصناف کی فنی خوبیوں پر اظہار خیال کیا انہوں نے رباعی اور قطعہ کے فرق کو واضح کیا اور کہا کہ رباعی میںپہلے دو اشعار یکساں نوعیت کے ہوتے ہیں اور چوتھے مصرعے میں بات کو انجام تک پہونچایا جاتا ہے جب کہ قطعات میں مصرعوں کے آگے بڑھنے کے ساتھ خیال بھی آگے بڑھتا جاتا ہے انہوں نے جاپانی صنف ہائیکو کی مثال دی اور کہا کہ اس میں تصویر کشی ہوتی ہے لیکن اردو شعرا ہائیکو کے فن کو درست استعمال نہیں کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ماضی کی طرح اردو غزل آج بھی اردو شاعری کی جان ہے۔غزل میں تضادات کے بیان کے ذریعے شعرا نے اسے حسن عطا کیا ہے انہوں نے کہا کہ غزل اردو شاعری کا ہتھیار ہے اس کی مقبولیت کو مد نظر رکھتے ہوئے شعرائے کرام کو چاہئے کہ سماج میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی‘ قومی یکجہتی کافروغ اور دیگر باتوں کو بہتر طور پر پیش کرنے کے لیے غزل کی صنف کا استعمال کریں۔ انہوں نے شاعری کی جدید اصناف پر بھی اظہار خیال کیا۔کلیدی خطبے کے بعد مہمانوں کے ہاتھوں شبلی انٹرنیشنل اردو حیدرآباد کے ماہانہ اردو رسالے صدائے اردو کے تازہ رسالے کا اجراء کیا گیا۔ اس کے مدیر ڈاکٹر محامد ہلال اعظمی ہیں اور مجلس انتظامی میں ڈاکٹر عبدالقدوس کنوینر سمینار ہیں۔ ڈاکٹر ہربنس کور پرنسپل کالج نے اپنے خطاب میں دوہے کی روایت پیش کی اور کہا کہ اردو اور ہندی دو بہنیں ہیں اور اردو شاعری کی مختلف اصناف میں اردو ہندی کے الفاظ کا تبادلہ ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اردو اور ہندی قومی یکجہتی کی علمبردار ہیں۔انہوں نے سمینار میں شرکت کرنے والے سبھی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ سمینار کے منتظمین کی جانب سے افتتاحی تقریب کے مہمانوں کی شال پوشی کی گئی اور انہیں یادگاری مومنٹو پیش کیا گیا۔کالج کی اردو لیکچرر رفعت سلطانہ نے افتتاحی اجلاس کے کامیاب انعقاد پر مہمانوں سے اظہار تشکر کیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی نے افتتاحی اجلاس کی ساری کاروائی اپنے فیس بک پر کی جسے دنیا بھر کے ناظرین نے مشاہدہ کیا۔ نماز اور ظہرانے کے بعد دو روزہ قومی اردو سمینار کے پہلے ٹیکنیکل سیشن کا سرسید ہال میں آغاز ہوا۔ جس کی صدارت ڈاکٹر معید جاوید عثمانیہ یونیورسٹی اور ڈاکٹررفیعہ سلیم اسسٹنٹ پروفیسر اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کی۔ جب کہ نظامت کے فرائض ممتاز اردو اسکالر محمد خوشتر نے انجام دئیے۔ ڈاکٹر حامد ماہتاب مدرس اردو بیگم پیٹھ پبلک اسکول نے اپنا مقالہ اردو میں دوہے کی روایت پیش کیا۔ انہوں نے دوہا نگاری کے فن اور اس کے کامیاب نمونوں کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو کی شعری اصناف میں دوہے بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ڈاکٹر محمد اسرار الحق سبیلی صدر شعبہ اردو سدی پیٹ ڈگری کالج نے بچوں کا ادب اور اردو کی شعری اصناف کے موضوع پر مقالہ پیش کیا اور کہا کہ اردو شاعری کی مختلف اصناف میں بچوں کا خاطر خواہ ادب تحریر کیا گیا۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو این ٹی آر ڈگری کالج محبوب نگرنے حالی کی رباعیات اور اخلاقی قدریں موضوع پر اپنا مقالہ پیش کیا اور کہا کہ حالی سرسید تحریک کے اہم کارکن ادب برائے زندگی کے علمبردار تھے انہوں نے اردو رباعیوں سے اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کی جسے فی زمانہ عام کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ڈاکٹر حمیرہ سعید صدر شعبہ اردو ویمنس ڈٖگری کالج سنگاریڈی نے مثنوی قطب مشتری کے نسوانی کردار موضوع پر مقالہ پیش کیا اور کہا کہ اردو مثنویوں کے نسوانی کردار بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد عظمت اللہ صدر شعبہ اردو ایم وی ایس ڈگری کالج محبوب نگر نے اردو غزل کا سفر عنوان سے مقالہ پیش کیااور امیر خسرو قلی قطب شاہ میر و غالب سے لے کر عہد حاضر میں اردو غزل کے بدلتے رنگ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو غزل عوام و خواص میں مقبول ہے جس سے اردو شاعری اور اردو زبان کو عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ ڈاکٹر کاشف اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے نظیر اکبر آبادی بہ حیثیت نظم گو شاعر اپنا مقالہ پیش کیا اور نظیر کی شاعری کی مختلف جہات کو اجاگر کیا۔ ڈاکٹررئوف خیر نے اردو نظم کی مختلف اصناف کے عنوان سے پر مغز مقالہ پیش کیا اور نظم کی مختلف اقسام جیسے سانیٹ‘مسدس‘مخمس‘رباعی‘ثلاثی ‘دوہے کی تفصیلات پیش کیں بعد انہوں نے اپنی ایجاد کردہ صنف ایک مصرعی نظم کومختلف مثالوں سے پیش کیا۔ اور کہا کہ اردو شاعری میں بہت سے مصرعے مکمل ہیں جو ایک مصرعی نظم کہلائے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے فن دوہا کے بارے میں کہا کہ اس میں اکثر ہندی الفاظ استعمال کئے جارہے ہیں اور موضوعات میں بھی تضادات ہیں۔ڈاکٹر حمیرہ اسسٹنٹ پروفیسر شاتاواہانہ یونیورسٹی کریم نگر نے اردو کی شعری اصناف کی اہمیت پر اپنا مقالہ پیش کیا۔ اس سیشن کے دیگر مقالہ نگاروں میںڈاکٹر ریحانہ سلطانہ ‘ڈاکٹر جبین تاج مانو‘ڈاکٹر بدر سلطانہ مانو‘ڈاکٹر حمیرا نوشین‘ڈاکٹر سمیہ تمکین امبیڈکر یونیورسٹی ‘پرشوتم ریسرچ اسکالراور ابو ہریرہ وغیرہ شامل تھے۔سیشن کی صدر ڈاکٹر رفیعہ نوشین نے اپنی صدارتی تقریر میں سبھی مقالہ نگاروں کو مبارک باد پیش کی اور مقالوں کے محاسن پیش کئے۔ ڈاکٹر معید جاوید نے کہا کہ سمینار کے لیے مقالے لکھنا اور پڑھنا ایک فن ہے انہوں نے مقالہ نگاروں کو مشورہ دیا کہ وہ اردو الفاظ اور اشعار کی درست قرائت پر توجہ دیں اور مستقبل میں اردو زبان و ادب کے سلسلے میں آنے والے مواقع سے بھر پور استفادہ کریں۔سمینار کے دوسرے ٹیکنیکل سیشن کی صدارت ڈاکٹر محمد ناظم علی سابق پرنسپل گونمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نظام آباد ڈاکٹر عسکری صفدر نے کی۔ اس سیشن میںڈاکٹر عبدالغنی سنسکرت ریسرچ اسکالر ‘افضال راشد اور دیگرنے اپنا مقالے پیش کئے۔ اس کے علاوہ سمینار میں داخل کئے گئے پرچے ڈاکٹر محمد ابرارالباقی شاتا واہانا یونیورسٹی کریم نگر آزاد نظم‘ ڈاکٹر محمد نظام الدین صدر شعبہ اردو این جی کالج نلگنڈہ اردو غزل کا فن ناہیدہ بیگم صدر شعبہ اردو گورنمنٹ ڈگری کالج بودھن نظام آبادوغیرہ کے مقالے پیش کئے گئے۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے مقالہ نگاروں کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ اردو کی شعری اصناف مختلف ڈھانچوں کے تحت اظہار خیال کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ غزل اور نظم کو شاعری میں مقبولیت حاصل رہی ہے۔ طلباء کو چاہئے کہ وہ نامور شعرا کا کلام پڑھیں اور خود بھی اساتذہ کی نگرانی میں شعر موزوں کرنے کی کوشش کریں انہوں نے کہا کہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کی جانب سے اردو سمیناروں کے انعقاد کے لیے مالی امداد مستحسن اقدام ہے۔ اس طرح کے سمیناروں میں پیش کردہ مقالوں اور مباحث کو صحافت کے ذریعے عام کیا جائے۔ٹیکنیکل سیشن کے اختتام کے بعد مہمانوں کے ہاتھوں ؎تمام مقالہ نگاروں کو سند مومنٹو اور شال پیش کی گئی۔ ڈاکٹر مختار احمد فردین اور ڈاکٹر ہلال اعظمی نے سمینار کے انعقاد کے لیے بھرپور تعاون پیش کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدوس کی جانب سے سمینار کے کامیاب انعقاد پر ان کی شال پوشی کی گئی۔ آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد کی جانب سے اس سمینار کی مکمل کاروائی کو ریکارڈ کیا گیا جسے بہت جلد آل انڈیا ریڈیو پر پیش کیا جائے گا۔ سمینار کے شرکا ء نے حسینی علم ڈگری کالج کو کامیاب سمینار کے انعقاد کے لیے مبارکباد پیش کی۔ سمینار کے دوسرے دن اختتامی اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں کالج کی طالبات نے اپنے مقالے پیش کئے۔ ڈاکٹر مصطفی کمال سابق صدر شعبہ اردو حسینی علم ڈگری کالج‘ ڈاکٹر مختار احمد فردین صدر اردو ماس سوسائٹی فار پیس‘ محسن خان ریسرچ اسکالر اور کنوینر سمینار و کالج کی پرنسپل ڈاکٹر ہربنس کور نے اختتامی اجلاس سے خطاب کیا۔ اور سمینار کے انعقاد میںتعاون پیش کرنے پرقومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی اور اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کا شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدوس نے سمینار میں شرکت کرنے والے سبھی مہمانوں‘اساتذہ‘ریسرچ اسکالرز ‘کالج کی طالبات اور عملے کا شکریہ ادا کیا۔