اردو شاعر ی میں زبان حال : تحقیق کا متقاضی: ڈاکٹر فرزانہ
زبانِ حال کی تفہم نسل نو کے لیے ضروری قدم: دانشوران
ہندوستانی زبانوں کا مرکز،جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور ورلڈا ردو ایسوسی ایشن کے اشتراک سے ایک خصوصی لیکچرکا انعقاد کیا گیا۔ ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی کے خصوصی خطاب سے قبل پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر شفیع ایوب نے جے ،این ،یو میں مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے پروگرام کے روح رواں پروفیسر خواجہ محمداکرام الدین(چئرمین ورلڈ اردو ایسوسی ایشن) کو تعارفی کلمات کی زحمت دی۔ پروفیسر موصوف نے تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ فارسی میں زبان حال کی روایت تو ہے لیکن اردو شاعری یا اردو ادب میں اس طرف کم توجہ دی گئی ہے، یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس جانب تحقیقی کام نہیں ہوا ہے۔ آج کے اس خصوصی خطاب کا مقصد یہ ہے کہ نسل نو زبانِ حال سے واقفیت حاصل کرسکے۔ اور اس جانب مثبت غوروفکر کے ساتھ زبانِ حال سے بہرہ ور ہوسکے۔ ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ زبان حال کی روایت فارسی میں تو دیکھنے کو مل جاتی ہے لیکن اردو میں کم ادیبوںنے اس جانب توجہ دی ہے۔ زبانِ حال کی رموز ونکات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی نے فارسی کے معر وف شاعر حافظ شیرازی سے لے کر اردوکے نامور شعر نظیر اکبر آبادی،(خدائے سخن)میر تقی میرعلامہ اقبال اور حفیظ جالندھری وغیرہ جیسے شعرا نے ”زبان حال“کا کس خوب صورتی سے استعمال کیا ہے۔ان سب پر بھرپور اور جامع روشنی ڈالی ۔زبانِ حال ایک ایسی اصطلاح ہے جس میں احساسات و کنایات کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔ واضح ہوکہ ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی کا تعلق شعبۂ اردو تہران یونیورسٹی تہران، ایران سے ہے۔اس اہم نشست میں مہمان خصوصی کے فرائض جناب فہیم اختر ، لندن نے انجام دیا ۔ موصوف نے ورلڈ اردو ایسو سی ایشن کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ عالمی سطح پر اس جیسی منظم تحریک کی ضرورت تھی، پروفیسر خواجہ اکرام اس جانب بہت عمدہ کام کررہے ہیں۔ میں اس ایسوسی ایشن کا حصہ ہوں اور اردو کی نئی بستیوں میں اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے مثبت سمت میں ہم سب مل جل کر کام کررہے ہیں۔مسئلہ ان بستیوں کا یہ ہے کہ وہاں نوجوان نسل اردو سے کم دل چسپی لے رہی ہے، ہم سب کی مشترکہ کوشش یہ ہو نی چاہیے کہ ان بستیوں میں موجود اداروں میں زیادہ سے زیادہ طلبہ وطالبات کو پہنچا سکیں ۔ اس کے لیے بھی سفیر اردو پروفیسر خواجہ اکرام کوشش کریں تاکہ اردو ادارے بند نہ ہوںاس کے لیے جرمنی، فرانس، برطانیہ اور پوروپ کے متعدد ادبا و دانشوران سے مل کر حکمت عملی بنانے کی ضرورت پر بھی فہیم صاحب نے زوردیا۔
پروفیسر انور پاشا، سابق چیرپرسن ہندوستانی زبانوں کا مرکز،جواہر لال نہرو یونیورسٹی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ اردو ایک عالمی رابطے کی زبان چکی ہے۔متعدد ادوار پر روشنی ڈالتے ہوئے پروفیسر پاشا نے مدارس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہندوستانی کی چند ریاستوں میں اردو زبان کے بارے میں یہ پیشن گوئی کی گئی تھی کہ اردو ختم ہوجائے گی لیکن مدارس نے اردو زبان کو تقویت پہنچایا۔یہ بات کہتے ہوئے مجھے خوشی ہورہی ہے کہ اردو کی ترقی میں مدارس اہم رول ادا کررہے ہیںیہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی بیشتر یونیورسٹیوں میں ۰۵ فیصد سے زائد طلبہ و طالبات مدارس سے آرہے ہیں۔پروفیسر موصوف نے ڈاکٹر فرزانہ اعظم لطفی کی استعمال شدہ نئی اصطلاح ”زبان حال“کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اردو ادب میں عام اصطلاح نہیں ہے ،بلکہ اس اصطلاح کی جانب ایک نئی سوچ دینے کی کوشش ہے۔ساتھ ہی اس نئی اصطلاح میں انہوں نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے نئے پہلوؤں کے ساتھ عمدہ تراکیب کا استعمال کیا ہے۔فرزانہ صاحبہ جانتی ہے کہ ہندوایران کے رشتے صدیوں پرانے ہیں ۔ اردو شعرا کی تخلیقات کی مدد سے ان رشتوں کو بحال کرنے کی عمدہ کاوش کے لیے مبارک باد۔پروفیسر خواجہ اکرام نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر فرزانہ اعظم کے خصوصی لیکچر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک استاد کے لیے اس سے بڑی خوشی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارے سامنے ہماری طالبہ نے خصوصی لیکچر اور بھی بھر پور لیکچر پیش کی ،اس کے لیے دلی مبارک باد۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہورہی ہے کہ اب زبانِ حال پر گفتگو شروع ہوچکی ہے۔ اس خصوصی سیمینار میں مہمان اعزازی کی حیثیت سے ڈاکٹر توحید خان، ڈاکٹر محمد کاظم، ڈاکٹر محمد محسن، ڈاکٹر سمیع الرحمان، ڈاکٹر شیوپرکاش اور ڈاکٹر محمد حافظ عمران کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالرس نے شرکت کی۔