نام کتاب:اردو سفرناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت
مرتب: ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین
صفحات:493، قیمت: 166
ناشر : قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی
مبصر:امتیاز وحید
،شاہین باغ،جامعہ نگر،نئی دہلیF-15825
انسانی ضروریات اور زندگی کی کثافتوں سے نجات پانے اور پر سکون لمحوں کی تلاش سفر کا محرک ہے، اس سیاق میں سفر انسانی جبلت میں شامل ایک ناگزیر عمل ہے، جس سے ہر بشر فطری طور پر گزرتا رہتا ہے، سفر کی انھی ناگزیریت نے اس کے سائنٹفک مطالعے کی راہ ہموار کی اور اب یہ باقاعدہ اصنافِ ادب کا حصہ ہے۔ سفر دقتوں، صعوبتوں اور زحمتوں کے ساتھ خوش کن لمحات، علم و آگہی، دوربینی اور جہاں بینی کی دولت بھی عطا کرتا ہے، سفر کو انھی سیاق میں وسیلۂ ظفر گردانا گیا ہے، ماضی کے بالمقابل جدید دنیا کی سہولتوں کی بدولت سفر نے نئی کروٹ لی ہے، زمین سے چاند کا سفر، خلاؤں کی سیر اور اتھاہ گہرے سمندر کی تہہ میں فرصت کے لمحات اب انسانی دسترس سے باہر نہیں۔عصری منظرنامہ میں سفر اب حقیقی معنوں میں بین ثقافتی نمائندہ بن گیا ہے۔ ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین کی زیرنظر کتاب سفرناموں میں لکھے گئے ہندوستان اور اس کی تہذیبی بوقلمونی کو موضوع بناتی ہے، بنیادی طور پر یہ کتاب ان مقالات کا مجموعہ ہے جو مارچ 2012 میں ’اردو سفرناموں میں ہندستانی تہذیب و ثقافت‘ کے موضوع کے تحت پڑھے گئے۔ اس میں کل 41مقالے شامل ہیں جنھیں چار مختلف ذیلی عناوین کے تحت رکھا گیا ہے۔ یہ مضامین ہندوستان اور اس کی مختلف ریاستوں، شہر، قصبہ یا علاقے کی تاریخ، تہذیب، عام زندگی کی بود و باش، پیشہ و تجارت، علمی و ادبی سرگرمیاں، فکر و تحقیق، کاشت، میوہ جات، ہندو صنمیات اور ہندستانی زندگی کے دیگر متعلقہ گوشوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
’ہندوستانی تہذیب و ثقافت‘ کے زمرے میں شامل پہلا مضمون سفرنامہ کے ادبی سروکار سے بحث کرتا ہے جس میں تاریخی حوالے سے ہجرت رسول کے سیاق میں تاریخ اسلام میں سفر کو انسانی اور اخلاقی تصور سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ مضمون سفرنامے کے صنفی ابعاد پر روشنی ڈالتا ہے اور تفصیل سے سفرنامہ کے عناصر کی نشاندہی کرتے ہوئے ’سفر کرنے‘ کو سفر نامہ نگاری سے مشروط کرتا ہے۔ اس حصے کے بیشتر مضامین میں ابن بطوطہ کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے کہ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں ہندوستان کو کن خصوصیات کا حامل بتایا ہے۔ قرونِ وسطیٰ کی تاریخ میں اس کے بیانیہ کی کیا خصوصیت ہے یا یہ کہ ابن بطوطہ نے ہندوستان کے پھل اور مختلف میووں کا کس طرح ذکر کیا ہے، ’کتاب الہند‘ کے حوالے سے ہندو صنمیات، ہندو الٰہیات اور ہندو اساطیری تصورات پر البیرونی کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے جب کہ اس زمرے کے بعض مضامین سفرناموں میں ثقافتی اور تمدنی پہلو کے لیے مختص ہیں۔
’دہلی اور ہندوستانی ریاستیں‘ عنوان کے تحت سات مضامین میں دہلی، دکن، بنگال، وادیِ کشمیر، لداخ اور پونے سے رانچی کے حوالے سے موضوع کے مختلف جہات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ روزنامچہ کی صورت میں قلم بند مولانا حکیم عبدالحی کی قدیم ترین روداد سفر جو بعد میں ’دہلی اور اس کے اطراف‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے، پر ایک مبسوط جائزہ شامل ہے۔ اس زمرے میں شامل مضامین متذکرہ خطوں کی تہذیب، تاریخ اور عام سماجی زندگی کی حرارت سے عبارت ہے۔
’ہندوستان غیرملکی سیاحوں کی نظر میں‘ یہ حصہ ان تاثرات پر مبنی ہے جو ہندوستان کی سیر و سیاحت پر آئے غیرملکی سیلانیوں نے تحریری شکل میں لکھی ہیں۔ ان میں عرب، برطانیہ اور پاکستان خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ عرب سیاحوں کی نظر میں عہد وسطیٰ کا شہر دہلی کی مرکزی حیثیت پہ قابل قدر گفتگو کی گئی ہے۔ اس حصے میں کولونیل دور کی برطانوی خواتین سیاح کی نظروں نے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے تئیں جو کچھ دیکھا، برتا اور پایا ساتھ ہی استعماری ہند کے سفرناموں میں بازار کلچر، صائب تبریزی اور علی حزیں کی فارسی شاعری میں ہندوستانی تمدن اور بیرونی سیلانیوں کے سفرناموں میں جنت نشاں خطۂ کشمیر کے تذکرہ پر بحث شامل ہے۔
آخری حصہ سفرناموں کے جائزے پر مشتمل ہے، جس میں دس سفرناموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جناب کوثرنیازی کا سفرنامہ ’نقشِ رہ گزر‘ ہندوستان میں ان کے دو اسفار کی روداد پر مشتمل ہے۔ اس میں سفرنامہ نگار کے دلی جذبات وکیفیات کے ساتھ تصوف، تاریخ اور ادب و سیاست کے بعض اہم گوشے زیربحث آئے ہیں۔ 1952میں سفرامریکہ اور یورپی ممالک کے سفر پر مشتمل ممتاز ترقی پسند نقاد پروفیسر احتشام حسین کا سفرنامہ ’ساحل اور سمندر’ کا تہذیبی مطالعہ کیا گیا ہے، یہ ڈائری کی ہیئت میں لکھا گیا سفرنامہ ہے، معروف ترکی اسکالر کے سفر ہند کی روداد پر مشتمل ’درونِ ہند‘ کو اس کے مشمولات کے پیش نظر ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا آئینہ بتایا گیا ہے اس کے علاوہ رضا علی عابدی کا مقبول زمانہ ’جرنیلی سڑک‘، شہزاد منظر کا سفرنامہ ’تین شہروں کی کہانی‘، انتظار حسین کی ’جستجو کیا ہے؟‘، سید سلیمان ندوی کا ’جنوبی ہند‘، دوسیوتھیونو کا ’سفرنامہ دکن‘، حسن رضوی کا ’دیکھا ہندوستان‘ اور قمر عباس جعفری کا سفرنامہ ’رپورٹر کی ڈائری‘ کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اس پر مستزاد سفرنامہ کے اغراض و مقاصد، علمی اور فکری بازیافت اور اس کی تمدنی اور ادبی معنویت پر مشتمل ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین کا پرمغز مقدمہ ہے جو ہندوستانی تہذیب و ثقافت پر غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے، مولانا ابوالکلام آزاد نے بجا طور پر سفر کو ’آدھا علم‘ کا منبع قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’سفر کے مشاہدوں نے میری نگاہ کو وسعت دی۔ جو لوگ سفر نہیں کرتے وہ بسم اللہ کے گنبد میں رہتے ہیں۔‘‘ اس حوالے سے توقع ہے کہ ڈاکٹر موصوف کی مرتب کردہ اس کتابی پیش کش کو علمی حلقے میں قدر کی نگاہ سے ضرور دیکھا جائے گا