پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین
ادب کے بدلتے رجحانات : عالمی بحران کے تناظر میں
اد ب خواہ کسی بھی دور کا ہو اُس میں معاصر عہد کی عکاسی کسی نہ کسی طور پر موجود ہوتی ہے اور بہت نمایاں طور پر موجود ہوتی ہے۔ کیونکہ ادب خلا میں پید ا نہیں ہوتا ادب کی تخلیق ہم عصر معاشرے کی بنیاد، اس کے تقاضے ، مطالبات اور رجحانات پر ہوتی ہے ۔ کیونکہ مصنف یا تخلیق کار اسی سماج اور معاشرے سے ہی سے مواد حاصل کرتا ہے جہاں زندگی کے شب و روز گزارتا ہے ۔ لہٰذاجیسا معاشرہ ہوگا ویسا ہی ادب ہوگا۔ادب کی جڑیں معاشرے میں اس طرح پیوست ہوتیں ہیں کہ اس کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ادب اور معاشرہ لازم ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
لیکن اس کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ادب کیا ہے اور تخلیق کیا ہے ؟ ادب کے بارے میں کہا جاتاہے کہ تحریر کی اعلیٰ شکل جس میں احساسات و تجربات ، مشاہدات، تفکرات اورتخیلات کو جمالیاتی انداز میں پیش کیا گیا ہو وہ ادب ہے۔لیکن ادب صرف تحریری نہیں ہوتا ۔ زبانی ادب ، عوامی ادب اور فوک لٹریچر بھی ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ زبان اور ادب کسی خاص خطے کی نمائندہ ہوتی ہے ۔اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ادب اپنے مخصوص علاقے کی تہذیب و تمدن کاہی عکاس ہوتا ہے۔ اس کلیے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ادب میں علاقے اور خطے کی تہذیب و تمدن کی پیشکش لازمی ہے۔کہا جاتا ہے کہ’’شعر وادب تفسیر زندگی بھی ہے اورتصویر زندگی بھی‘‘ لیکن اس تصویر میں اگر عالمی کرب و الم ، دردو غم اور عیش طرب بھی شامل ہوجائے تو وہ ادب عالیہ کے زمرے میں آئے گااور اسی ادب کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے جس کی پیشکش میں مقامیت کے ساتھ عالمیت بھی موجودہو۔
ادب کے متعلق دو نظرئیے ہیں ایک ادب برائے ادب اور دوسرا ادب برائے زندگی ہے۔ اِن دونوں نظریات کے تحت ادب لکھا گیا ہے اور لکھا جارہاہے ۔ لیکن عام طور پر اُسی ادب کو اہمیت حاصل ہے جو زندگی کی عکاس بھی ہو اور زندگی کے لیے مشعل راہ بھی ہو ۔ قدرو قیمت اسی ادب کی ہے جو نہ صر ف زندگی کی تصویر دیکھائے بلکہ زندگی کر نے کے راستے بھی دیکھائے ۔ ادب محض زندگی اور تہذیب و تمدن کی عکاسی ہی نہ کرے بلکہ اس میں مسرت و بصیرت کی ایسی آمیزیش ہوجو جمالیاتی حظ بخشتی ہو، جو تفریح ِذہن و دل کے ساتھ بصیرت کا ادراک کراتی ہو تو وہ ادب کے زمرے میں آسکتا ہے ۔
اب ذررا غور کریں اس عالمی وبا کے دور میں۔۔ پوری دُنیا سراسیمگی کے عالم میں ہے۔ ہر چہار جانب خوف اور وحشت کا ایک ایسا سماں ہےکہ شخص سہما ہوا دکھائی دے رہاہے۔ پوری دنیا کے منظر نامے پر نگاہ دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے جیسے زندگی ٹھہر سی گئی ہے ۔ آج کا انسان جس طرح کےکرب سے گزررہا ہے ایسا کرب دنیا نے صدیوں کے بعد شاید دیکھا ہے ۔ جہاں انسان انسانوں سے ڈر رہاہے ۔یہ دنیا جس میں انسانوں نے ہی ترقیات کا کرشمہ دکھایا اور تکنیکی وسائل سے اس وسیع و عریض دنیا کو ایک گاؤں میں تبدیل کردیا۔ کس کو معلوم تھا کہ جن ترقیات نے دنیا کو عالمی گاؤں میں تبدیل کیا اب وہی دوریاں سمیٹنے والی ترقیات انجماد کا شکار ہورہی ہیں بلکہ یوں کہیں کہ اب اس عالمی گاؤں کے تحفظ کا انحصار دوریاں بڑھانے میں ہی ہے ۔ محمود شامنے شاید اسی کے پیش نظر کہا تھا:
عجیب درد ہے جس کی دوا ہے تنہائی
بقائے شہر ہے اب شہر کے اجڑنے میں
میر سودا کے مشہور قصیدے کے ایک شعر کو بارہا پڑھا مگر اب جب اس شعرکو یاد کرتا ہوں تولگتا ہے سودا آج کے لیے ہی لکھاتھا:
اکیلا ہو کے رہ دنیا میں گر جینا بہت چاہے
ہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانی
کورونا کی پہلی لہر کو یاد کریں اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا منظر یاد کریں کہ کس بے سروسامانی اور کسمپرسی کےحالت تھی۔ شہر کے شہر ویران ہورہے تھے لوگ شہروں سے پہلی دفعہ اتنے بڑے پیمانے پر۔ دیہاتوں کی جانب پا با رکاب تھے ۔گھروں میں بیٹھے افراد ایک انجانے خوف سے لرز رہے تھے ، گھر کے دروازوں پر ہونے والی ایک دستک اہل خانہ کو ایسے خوف میں مبتلا کردیتی تھی جس کو ہم اور آپ صرف محسوس کرسکتے ہیں ۔ کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ انسان انسانوں سے اس طرح خائف ہوگا :ناصر کاظمی اک یہ شعر شاید اسی دور کے لیے لکھا گیا تھا:
اتفاقات ِ زمانہ بھی عجب ہیں ناصر
آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے
نہ کسی سے ملنا نہ کسی کی عیادت کرنا اور نہ کسی کی تجہیز و تکفین میں شریک ہونا یہ سب اس عہد کے انسان کو نہ چاہتے ہوئے بھی کرنا پڑا۔۔۔ یہ اور اس طرح کے نجانے کتنے داخلی اور خارجی کرب نے انسانوں سے انسانیت چھین لی ۔ اکیسویں صدی کی یہ دوسری دہائی ہے لیکن غور کریں کہ اس صدی کی ابتدا ہی حالات کی دگرگونی سے ہوتی ہے ۔ دنیا میں اس قدر نشیب و فراز آئے کہ قربتیں دوریوں میں ، محبتیں نفرتوں میں تبدیل ہوگئیں ۔
اس صدی کی ابتدا ایک جانب ظلم و بربریت اور بالادستی کے کرتوتوں سے ہوئی تو دوسری جانب اس صدی کی ترقیات نے انسانوں سے انسانیت چھین لی ۔ انسان اب مشین اورروبوٹ بن گئے ۔ سلور اسکرین اور اسمارٹ فون نے انسانوں کو اس طرح اپنا قیدی بنا لیا ہے کہ اس کے بغیر جینے کا تصور لامحال ہوگیا ۔
رہی سہی کسر اس کورونا نے پوری کردی کہ اب رئیل ملاقات کی جگہ ورچوئل ملاقاتیں ہونے لگی ہیں ۔اب تو تعلیم و تدریس ہو یا محفل شعر وادب سب مجازی ہیں ۔ ایک جانب اس عنکبوتی دنیا (web world )نےا گر انسانوں کو مقید کرلیا ہے تو اس قید وبند میں جینے کی کچھ آسانیاں بھی فراہم کی ہیں ۔ لیکن یہ آسانیاں بھی بالکل ایسی ہیں جیسے اسلم فرسوری نے کہا ہے :
مچھلی ہوں میں ایک ،جسے کوئی ستم ظریف
بوتل میں بند کرکے سمند ر میں پھینک دے
مچھلی کو جینے کے لیے پانی چاہیے لیکن صرف پانی درکار نہیں ہے بلکہ پانی کی کھلی فضا بھی درکار ہے ۔غور کریں آج عالمی سطح پر جو حالات ہیں ان کے سبب ہماری اور آپ کی زندگی بھی اسی کے مصداق ہوگئی ہے ۔ اس معاشرے کے جبر نے ہمیں جینے کے لیے بند بوتل کے پانی میں رکھ کر سمندر میں پھینک دیا ہے جہاں سمندر کی بے پناہ گہرائیوں اور وسعتوں کو دیکھ تو سکتے ہیں مگر اس فضا کا لطف نہیں لے سکتے ۔آ ج کی یہ عنکبوتی دنیا یہی ہے ۔
لیکن یہ محض حقیقت کی ایک سمت ہے جہاں میڈیکل سائنس بلاشبہ لوگوں کے تحفظ کے لیے ہی دوریاں بنانے کی ہدایت کررہاہے لیکن ایک حقیقت وہ بھی جس کی تصویریں ادب دکھا رہاہے کہ اس دردو کرب میں کیسے انسان انسان کے کام آسکتا ہے ۔
معاصرتخلیقی منظر نامے یا عہد کورونا کے ادب پر نظر غور کریں اور رجحانات کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ کرونائی ادب جس تیزی اور سرعت کے ساتھ لکھا جا رہا ہے، یہ بذات خود ایک حیرت انگیز معاملہ ہے۔ اتنے کم عرصے میں شاعری اور فکشن کا اتنا ذخیرہ جمع ہو چکا ہے کہ اسے دیکھ کر یقین کرنا مشکل ہے۔خوشی ہوتی ہے کہ ہر صنف ادب میں تخلیقی سر چشمے موجود ہیں جو آبشار کی طرح اپنے وجود کو نہ صرف نئی شناخت کے ساتھ ثابت کر رہے ہیں بلکہ اُس کے بہتےدھارے ہر سمت میں شائقین ادب کو سیراب کر رہے ہیں ۔ فکشن ہو یا شاعری ہر صنف میں ادیبوں کی جولانیاں قابل ستائش ہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ ہر عہد کا ادب اپنی شناخت کے ساتھ نمو پذیر ہوتا ہے ۔اسی لیے آج کے ادب کو دیکھیں تو نئے رجحانات و رویے نمایاں طور پر نظر آئیں گے۔اکیسویں صدی کا اد ب ویسا ہی شش جہات ہے جس طرح اکیسویں صدی کے حالات و کوائف ہیں۔ اس سرعت سے بدلنے والی دنیا میں اردو ادب کو دیکھیں بالخصوص اکیسویں صدی میں تخلیق ہونے والے ادب کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے کہ ہمارے ادب نے جس طرح اپنی ابتدا سے زمانے کے دوش بدوش چلنے کی راہ اپنائی تھی وہ اب بھی جاری و ساری ہے ۔ وقت کے تقاضے ، مطالبات اور اپنے عصر کے ذہن و مزاج کو آج بھی اردو شعرو ادب میں بخوبی پیش کیاجا رہا ہے ۔اس عہد کی شاعری کی کچھ مثالیں ملاحظہ کریں:
ماسک کا نرخ بھی پرواز پہ مائل ہے حضور
ایسی مہنگائی سے اب کون نمٹ پائے گا
اے کورونا ! ترا ہو ستیاناس
تو نے روزی سے کردیا ہے خلاص
گھر میں آٹا نہ دال نے سبزی
ہائے مزدور تیری حسرت و یاس مشتاق شباب
۔۔۔۔۔
کسے خبر تھی کہ یہ وائرس بلا ہوگا
قضا کے ساتھ شکاری نکل پڑا ہوگا حسام حر
افسوس کہ ہر شہر ہے اب شہر خموشاں
ہیبت کا یہ عالم ہے کہ ماتم بھی نہیں ہے ضیاء اللہ خان ضیا
اسیر بھی نہیں ، آزاد بھی نہیں ہیں ہم
لگا ہے ڈر کہ وہ ہر گام پر کھڑا ہوگا
قریب ہو کے بھی اب دور دور رہنا ہے
سو اس طرح کے بھلا اور کیا برا ہوگا
افسوس یہ وبا کی دنوں کی محبتیں مشتاق شباب
ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گئے سجاد بلوچ
اے زلف پراگندہ ، زنجیر کشائی کر
مجھ سے تو نہ ٹوٹے گا ، زندانِ قرنطینہ جلیل عالی
شبِ فراق خیالِ وصال کم کم ہے
یہ اور بات طبیعت بحال کم کم ہے
جو ایک رسم چلی تھی مزاج پُرسی کی
کبھی بہت تھی مگراب کے سال کم کم ہے
تھکنا بھی لازمی تھا کچھ کام کرتے کرتے
کچھ اور تھک گیا ہوں آرام کرتے کرتے ظفر اقبال
گھر رہیے کہ باہر ہے اک رقص بلاؤں کا
اس موسم وحشت میں نادان نکلتے ہیں فراست رضوی
جان ہت تو جہان ہے ، دل ہے تو آرزو بھی ہے
عشق بھی ہورہے گا پھر ، جان ابھی بچایئے سعود عثمانی
یہ جو ملاتے پھرتے ہو ہر کسی سے ہاتھ
ایسا نہ ہو کہ دھونا پڑے زندگی سے ہاتھ جاوید صبا
بھوک سے ی اوبا سے مرنا
فیصلہ آدمی کو کرنا ہے عشرت آفرین
اب یہاں رند ہیں نہ سجدہ گزرا
مسجدیں اور میکدے تنہا انجم عثمان
میں وہ محروم عنیات ہوں کی جس نے تجھ سے
ملنا چاہا تو بچھڑنے کی وبا پھوٹ پڑی نعیم ضرار
رقص وحشت نے کہا آنکھ میں پانی بھر کے
کیسی سازش یہ ہماری ہے قرنطینہ میں ایم زیڈ کنول
لاک اپ میں غریبوں کا اب حال نہیں کوئی
آٹا بھی نہیں ملتا، چینی کا بھی رونا ہے
عمران کدھر جائے، کس کس سے لڑے تنہا
اندر بھی کورونا ہے باہر بھی کورونا ہے عمران
عہد کورونا میں کئی اہم ناول اور ناولٹ بھی آئے اور بہت سے افسانے بھی لکھے گئے ۔ مشہور و معروف تخلیق کاروں نے بھی تخلیقی جوہر دکھائے لیکن یہاں چند ایسے افسانوں کے اقتباسات ملاحظہ کریں جو بہت معروف۔ تو نہیں لیکن ان کے افسانے بہت اچھے ہیں ۔ چند اقتباسات دیکھیں:
افسانہ خدشہ، مبین نظیر ، مالیگاؤں کا یہ اقتباس دیکھیں :
’’رمضان کا مبارک مہینہ تھا لیکن سحری کے وقت سے ہی شور و شرارت کرنے والے بچے گھروں میں قید تھے ـ سحری کے لئے جگانے والوں کی مانوس آواز سننے کو کان ترس گئے ـ مساجد، جن کی رونق رمضان میں دوبالا ہوجاتی تھی، ان میں تالے، مندر اور چرچ، گرجا اور گردوارے بھی مقفل ـ تراویح سنانے والے حفاظ، مدارس کے سفرا اور ذمہ داران اور مستحقین زکوٰۃ دل مسوس کر بیٹھ گئے ـ بازار جو رمضان کے لئے خاص طور پر آراستہ کئے جاتے تھے اپنی ویرانی پر ماتم کناں تھے ـ رمضان کی مہینوں پہلے سے تیاری کرنے والے تاجر اس بے رونقی پر آنسو بہارہے تھے ـ رمضان کی آمد پر زیادہ محنت کرکے اپنے مستقبل کو سنوارنے کا خواب دیکھنے والے اور دو پیسے پس انداز کرنے کی کوشش کرنے والے محنت کش مزدور اور چھوٹے موٹے دکان دار دو مہینے سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے ـ روز کنواں کھودنے والوں کی جمع پونجی ختم ہوچکی تھی ـ لیکن پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے کچھ تو چاہیے ـ اس لئے وہ خوابوں کی نگری سے اپنی مٹی کی طرف لپک رہے تھے ـ مئی کی جھلسا دینے والی دھوپ میں اپنے پریوار اور سازوسامان کے ساتھ وطن کی جانب بڑھے چلے جارہے تھے ـ سر پر سامان کی گٹھری، تو کاندھوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ ـ اور اس بوجھ پر اپنے بڑھاپے کی لاٹھی جو دھوپ کی شدت کی وجہ سے کمھلائی جارہی تھی ـ کمر بھوک، پیاس اور نقاہت سے جھکی جارہی تھی ۔ایک ہاتھ میں سامان کی تھیلی تو دوسرے ہاتھ میں بھوک اور پیاس سے نڈھال بچہ ـ چند میٹر کے بعد دائیں ہاتھ کا سامان بائیں ہاتھ میں آجاتا تو کبھی گود کا بچہ کاندھے پر اور کاندھے والا گود میں ـ کبھی ماں ان کی سواری بن جاتی تو کبھی باپ ـ اور کبھی ان معصوموں کو پیدل چل کر خود ہی اس آگ کے دریا کو عبور کرنا پڑتا ـ ہزار پندرہ سو کلومیٹر کا سفر اور زاد راہ کے طور پر تفکر اور یاس کی سوغات ـ حالانکہ اعلان تو ایک بڑی رقم کا ہوا تھا ـ اپنے لوگ، اپنے وطن کی چاہ میں وہ دیوانہ وار چلے جارہے تھے ـ کہیں درخت کا سایہ ملا، پل دو پل ٹھہر گئے ـ سانس درست کی ـ ہاتھوں اور کاندھوں کو کچھ آرام دیا اور پھر چل پڑے ـ کسی عمارت کی چھاؤں نظر آئی، چند لمحے آرام کیا اور پھر شیطان کی آنت کی طرح نہ ختم ہونے والی تارکول کی کالی سڑک کو اپنے حوصلوں سے مات دینے لگے ـ دوسروں کو پناہ دینے کی بات کرنے والے سیاہ دل حکمرانوں کی طرح تارکول کی یہ سڑک بھی ان بے کسوں کی آزمائشوں میں اضافہ ہی کرتی رہی ـ ان جیالوں کے پیروں میں بیڑیاں نہ ڈال سکی تو آبلوں کا اضافہ کردیا ـ‘‘
افسانہ ’‘’تحفہ‘‘ رخسانہ نازنین :
صبح ڈور بیل کے ساتھ ہی زور زور سے دروازہ پیٹنے کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی . دروازہ کھولا تو دیکھا کہ پولیس کی ایک پوری ٹیم ڈاکٹرز کے ساتھ کھڑی تھی. وہ ان سب کو اپنے سامنے دیکھکر گھبرا گئی. اس سے قبل کہ کچھ پوچھتی. لیڈی پولیس انسپکٹر نے نرس کو اشارہ کیا. وہ سب حفاظتی لباس میں تھے اور ماسک لگائے ہوئے تھے. انہوں نے کرسٹینا کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور ایمبولینس میں بٹھا دیا. وہ کچھ سمجھ نہیں پارہی تھی. فلیٹ کو سیل کردیا گیا اور ایمبولینس ہاسپٹل کی طرف چل پڑی.
” یہ کیا ہورہا ہے ؟ آپ لوگ مجھے کہاں لیجا رہے ہیں ؟ ” وہ چیختی چلاتی رہی…
” چپ رہو. زیادہ شور مچانے کی ضرورت نہیں! ائیرپورٹ کے سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے تمہاری شناخت کی گئی ہے. تم امریکہ سے آئی ہوئی جس خاتون سے بغیگیر ہوئی تھیں. وہ رات ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائی گئی ہے . شبہ ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثرہ تھی. اس کے فون میں تمہاری تصویر کے ساتھ نمبر ملا اور لوکیشن کا پتہ چلا. اسی لئے تمہیں بھی حراست میں لے کر ہاسپٹل شفٹ کیا جارہا ہے. تمہاری بھی مکمل جانچ ہوگی. تمہارے گھر کو بھی مقفل کردیا گیا ہے تاکہ تم نے جن اشیاء کو چھوا تھا اس سے وائرس دوسروں میں منتقل نہ ہوجائے! “.. لیڈی پولس اور نرس نہایت سختی سے پیش آرہے تھے‘‘
’’بھوک کا مبادلہ ‘‘ خاور چودھری
’’جینے مرنے پر جہاں اختیار نہ ہو، وہاں انسانیت کا سوال ہی مر جاتا ہے۔‘‘
یہ بات وہ پچھلے کئی روز سے سوچ رہی تھی، اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی، کہ آخر ہو کیا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ قرنطینہ میں موجود لوگ اسی طرح سسک سسک کر دم توڑ جائیں گے کیا؟ کیا حکومتی لوگ سچ مچ ان کی زندگیاں بچانے کی کوشش میں ہیں؟ کیا حکومت اتنی بے بس ہو چکی ہے، کہ اُس کے پاس کھانا فراہم کرنے کی سکت بھی نہیں رہی؟
ان تخلیقات کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس دور وبا میں ادیبوں نے خوب تخلیقی جوہر دکھائے ہیں اور یہ بات بھی صادق آتی ہے کہ ہر دور جبر وقہر میں ادب کو نئی جلا ملتی ہے ۔